نیوزی لینڈ نے بھی ہانگ کانگ سے حوالگی معاہدہ معطل کر دیا
28 جولائی 2020نیوزی لینڈ نے منگل 28 جولائی کواعلان کیا ہے کہ وہ ہانگ کانگ کے ساتھ حوالگی معاہدہ معطل کر کے انٹیلیجنس شیئر کرنے والے اپنے اتحادی ممالک کی پیروی کریگا۔ اس نے یہ قدم نیم خود مختار علاقے ہانگ کانگ میں چین کی جانب سے نئے متنازعہ سکیورٹی قانون کے نفاذ کے رد عمل میں کیا ہے۔
خفیہ انٹلیجنس شیئر کرنے کے مقصد سے امریکا، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسے پانچ ممالک کے درمیان ''فائیو آئیز'' نام سے ایک معاہدہ ہے۔ان میں سے چار ممالک ہانگ کانگ کے ساتھ اپنے حوالگی معاہدہ پہلے ہی معطل کر چکے تھے جن کی پیروی کرتے ہوئے نیوزی لینڈ نے بھی اس کا اعلان کر دیا ہے۔
چین نیوزی لینڈ کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور ماضی میں نیوزی لینڈ بیجنگ کے ساتھ براہ راست کسی بھی طرح کے سیاسی ٹکراؤ سے گریز کرتا رہا ہے۔ لیکن نیوزی لینڈ کے وزیر خارجہ ونسٹن پیٹرز کا کہنا ہے کہ چین نے ہانگ سے متعلق جو نیا سکیورٹی قانون وضع کیا ہے اس سے اس نے عالمی برادری سے جو وعدے کر رکھے تھے، اس کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا، ''نیوزی لینڈ کو اب اس بات پر یقین نہیں رہا کہ ہانگ کانگ کا فوجداری نظام انصاف چین سے پوری طرح آزاد ہے۔'' ونسٹن پیٹرز کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ سے تعلقات میں مزید تبدیلیاں آئیں گی اور اب نیوزی لینڈ ہانگ کانگ کو کسی بھی طرح کی فوجی نوعیت کی یا پھر ٹیکنالوجی کی برآمدات کو بالکل اسی نظریے سے دیکھے گا جیسے وہ چین کو برآمد کرتا ہے۔
نیوزی لینڈ نے اپنی عوام کے لیے ہانگ کانگ کے سفر سے متعلق جو نئی ایڈوائزی جاری کی ہے اس میں بھی لوگوں کو نئے قانون کے تحت خطرات سے آگاہ رہنے کو کہا گیا ہے۔
نیوزی لینڈ کے وزیر خارجہ ونسٹن پیٹرز نے کہا، ''چین نے قومی سلامتی سے متعلق جو نیا قانون وضع کیا ہے اس سے نہ صرف قانون کی حکمرانی کے اصول و ضوابط کا خاتمہ ہوا بلکہ ہانگ کانگ کی انفرادیت کے حامل 'ایک ملک، دو نظام' کے فریم ورک کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ چین نے بین الاقوامی برادری سے جو وعدے کیے تھے،یہ اس کے بھی منافی ہے۔''
چین نے ابھی تک نیوزی لینڈ کی اس تازہ کارروائی کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے تاہم اس سے قبل دیگر ممالک کی جانب سے اس طرح کی کارروائی کو اس نے اپنے اندرونی معاملات میں بیجا مداخالت سے تعبیر کیا ہے۔ چین نے اس سلسلے میں برطانیہ کی کارروائی پر سخت رد عمل ظاہر کیا تھا۔
بیجنگ کا کہنا ہے ہانگ کانگ میں سکیورٹی سے متعلق اس نے جو نیا قانون وضع کیا ہے وہ دہشت گردی اور علیحدگی پسندی پر قابو پانے کے لیے
بہت ضروری ہے۔ اس قانون کے تحت خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف مقدمہ ہانگ کانگ میں ہی چلے گا تاہم بعض خاص حالات میں اس بات کی بھی گنجائش رکھی گئی ہے کہ ہانگ کانگ کے بعض حساس معاملات چینی حکام کے دائرہ اختیار میں بھی آسکتے ہیں۔
ص ز / ج ا (ایجنسیاں)