1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیتن یاہو اکثریت حاصل کرنے میں پھر ناکام

18 ستمبر 2019

اسرائیل میں چھ ماہ سے بھی کم وقت کے دوران ہونے والے دوسرے پارلیمانی انتخابات میں کوئی بھی سیاسی جماعت واضح کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ بینجمن نیتن یاہو کے سیاسی مستقبل پر بادل چھانے لگے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3Plue
Bildkombo:  Benny Gantz, Avigdor Lieberman und Benjamin Netanyahu
تصویر: Reuters/R. Zvulun

اسرائیلی پارلیمانی انتخابات میں وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی لیکود پارٹی اور سابق آرمی چیف بینی گینٹس کی قیادت میں قائم سیاسی پارٹیوں کے اتحاد بلیو اینڈ وائٹ میں کسی کو بھی واضح برتری حاصل نہیں ہو سکی ہے۔ ان دونوں جماعتوں کو بتیس بتیس نشستیں حاصل ہو چکی ہیں۔

منگل 17 ستمبر کو ہونے والے انتخابات کے حوالے سے ایگزٹ پولز کے مطابق حتمی گنتی مکمل ہونے پر بلیو اینڈ وائٹ کو چونتیس اور لیکود پارٹی کو تینتیس نشستیں ملنے کا امکان ہے۔ اسرائیل میں بسنے والی عرب آبادی کی سیاسی پارٹیوں کو بارہ سیٹیں ملی ہیں۔

اس وقت سب سے اہم حیثیت سابق وزیر دفاع ایوگڈور لیبرمن کو حاصل ہو گئی ہے۔ انہیں 'کنگ میکر‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ وہ جس کی جانب بڑھیں گے، وہی حکومت سازی کا اہل  ہو گا۔ لیبرمن نے اسرائیل میں ایک سیکولر لبرل حکومت کے قیام کی حمایت کر رکھی ہے۔

لیبرمن نے مغربی کنارے میں اسرائیلی بستی میں واقع اپنی رہائش گاہ کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب سب کچھ واضح ہو گیا ہے، جس کا انتخابی مہم میں تذکرہ کیا جاتا رہا ہے اور اب اس منقسم انتخابی عمل کا حل ایک لبرل یونٹی حکومت میں پوشیدہ ہے۔

Israel Wahl 2019 | Zeitungen nach der Wahl
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بینجمن نیتن یاہو کے سیاسی مستقبل پر بادل چھانے لگے ہیںتصویر: DW/D. Regev

اگر لیبرمن بلیو اینڈ وائٹ کے ساتھ مل جاتے ہیں تو بینجمن نیتن یاہو کے اقتدار کا تسلسل ختم ہو جائے گا۔ بینی گینٹس یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ لیکود پارٹی کے ساتھ مل کر یونٹی حکومت قائم کر سکتے ہیں لیکن اس صورت میں لیکود پارٹی کی قیادت بینجمن نیتن یاہو کے پاس نہیں ہونی چاہیے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایسا دکھائی دیتا ہے کہ نیتن یاہو اب مزید وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہنے کی پوزیشن میں نہیں رہے۔

نیتن یاہو اسرائیل کے سب سے طویل عرصے تک برسراقتدار رہنے والے سیاستدان ہیں اور وہ اس مرتبہ بھی حکومت قائم کرنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ مذہبی اور انتہائی قدامت پسند سیاسی جماعتوں پر تکیہ کیے ہوئے ہیں ۔

دوسری جانب انہیں کرپشن الزامات کا بھی سامنا ہے اور وہ یہ خواہش بھی رکھتے ہیں کہ حکومت تشکیل دینے کے بعد انہیں پارلیمانی قانون سازی کے ذریعے عدالتی کارروائی سے نجات مل سکے۔

ع ح / ا ب ا (اے ایف پی، اے پی)