1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نہ بیضہ درکار، نہ اسپرم: زندگی لیبارٹری میں تیار

3 مئی 2018

سائنس دانوں نے لیبارٹری میں بغیر انڈے اور اسپرم کے اختلاط کے صرف اسٹیم سیلز لے کر ایک چوہے کا ایک پروٹو ایمبریو تیار کر لیا ہے۔ ایمبریو کی طرز کا یوں ایک اسٹرکچر تیار کر لینے کو ایک بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/2x6f4
In-vitro-Fertilisation (IVF)
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Grubitzsch

دو مئی بدھ کے روز جاری کردہ ایک سائنسی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس پروٹو ایمبریو کی تیاری اسپرم یا انڈے کے اختلاط کے بغیر نہایت مشکل تصور کی جاتی تھی، تاہم سائنس دانوں نے اس کا حل نکال لیا ہے۔

 سائبیرین ٹائیگر کا علاج اسٹیم سیل ٹیکنالوجی سے

لیبارٹری میں جسمانی اعضاء کی تیاری شروع کر دی

ایمبریو کی کلوننگ میں تاریخی کامیابی

اس تجربے میں چوہے کے اسٹیم سیلز کے ذریعے پلیسینٹا اور ایمبریو تیار کیے گئے۔ اس طریقے کے تحت خود سے پیدا ہونے والے پروٹو ایمبریوز بنانا اور پھر انہیں رحم مادر میں رکھ دینا ممکن بنا دیا گیا ہے۔

سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق اس طریقے کے تحت ایمبریو کی تخلیق نہیں کی گئی اور نہ ہی اس تجربے کا یہ مقصد تھا، تاہم اس سے حمل اور زندگی کے ابتدائی مراحل سے متعلق انتہائی اہم معلومات حاصل ہو سکتی ہیں۔

اس تحقیقی رپورٹ کے مصنف ہالینڈ کے شہر اُٹریشٹ میں واقع ہیربریشٹ انسٹیٹیوٹ اور MERLN کے محقق نیکولاس ریورون کے مطابق، ’’یہ پیش رفت حمل کے ابتدائی مراحل کے نادیدہ جہاں وا کر رہی ہے۔‘‘

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایمبریو اپنی تیاری کے وقت انسانی بال کی چوڑائی کے برابر تھا اور اسے رحم مادر میں رکھا گیا۔ ریورون نے بتایا کہ ابتدا میں ایمبریو کو تمام طرح کے خلیات کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ وہ ایک مکمل جسم بنا سکے۔ ریورون کے مطابق، ’’اس سے ہم زندگی کی ابتدا کے لمحات اور پوشیدہ تفصیلات کو بہتر انداز سے جان سکیں گے۔ اس سے بانجھ پن سے جڑے مسائل کے حل میں بھی مدد ملے گی جب کہ ادویات کی تیاری میں جانوروں پر تجربات کیے بغیر بھی ان ادویات کے اثرات کو سمجھا جا سکے گا۔‘‘

یہ بات اہم ہے کہ انسانوں میں مصنوعی انداز سے حمل ٹھہرانے کے لیے استعمال ہونے والے طریقہ کار IVF میں قریب دو تہائی صورتوں میں ناکامی ہوتی ہے اور زیادہ تر ناکامی بارآور انڈے کو رحم میں رکھنے کے عمل کے دوران ہوتی ہے۔ اس ناکامی کی وجوہات اب تک معلوم نہیں ہو سکیں۔

اس تازہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق ممالیہ جانوروں کے باورآور انڈے بلاسٹوسِسٹ میں تبدیل ہو جاتے ہیں، جو ایک دائرے کی شکل میں سو سے بھی کم خلیات کا مرقع ہوتے ہیں۔ پھر یہ دو حصوں میں تقسیم ہو کر بیرونی جھلی بناتے ہیں۔ یہی بعد میں پلیسینٹا (بچے کے لیے خوراک کا نظام) بنتا ہے جب کہ اندر کی طرف ایک نہایت چھوٹا سا حصہ ہوتا ہے، جو مستقبل کا ایمبریو ہوتا ہے۔

ع ت / م م