1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نگورنو کاراباخ تنازعہ: تیسرے جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد

26 اکتوبر 2020

امریکا کی ثالثی میں تیسری مرتبہ جنگ بندی شروع ہو چکی ہے۔ اس سے قبل روس کی ثالثی میں ايسی دو کوششیں ناکام رہی تھیں جبکہ آرمینیا اور آذربائیجان دونوں نے ایک دوسرے پر فائر بندی معاہدے کی خلاف ورزی کے الزامات لگائے ہيں۔

https://p.dw.com/p/3kQzf
Berg-Karabach Konflikt
تصویر: Hayk Baghdasaryan/Photolure/Reuters

امریکاکی ثالثی میں آرمینیا اور آذربائیجان نے متنازعہ نگورنو کارباخ تنازعے کے حل کے ليے جنگ بندی کا اعلان کر ديا ہے، جو دونوں ملکوں کے درمیان مقامی وقت کے مطابق آج صبح آٹھ بجے (0400 جی ایم ٹی) سے نافذ ہے۔

امریکا کا کہنا ہے کہ نگورنو کاراباخ کے تنازعے پر آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان انسانی ہمدردی کی بنیاد پر نئی جنگ بندی پر آج پیر سے عمل درآمد شروع ہو جائے گا۔ امریکی محکمہ خارجہ، آرمینیا اور آذربائیجان کی حکومتوں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان مقامی وقت کے مطابق صبح آٹھ بجے سے جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد شروع ہو جائے گا۔

رواں مہینے روس کی ثالثی میں آرمینیا اور آذربائیجان نے دو مرتبہ جنگ بندی کے معاہدے طے کیے لیکن وہ ناکام ثابت ہوئے جس کے لیے دونوں ملکوں نے ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے۔

نئی جنگ بندی معاہدے کے بعد تینوں ملکوں کی طرف سے جاری کردہ مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ آرمینیا کے وزیر خارجہ زوہراب ناٹساکانیان اور ان کے آذری ہم منصب جیہن بائیراموو کی امریکی نائب وزیر خارجہ اسٹیفن بیگن کے ساتھ تفصیلی بات چيت کے بعد جنگ بندی پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔

مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکا نے دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے درمیان بات چیت میں مدد کی۔ ان ملاقاتوں میں منسک گروپ کے شریک چیئرمین صاحبان نے بھی شرکت کی۔ فرانس، روس اور امریکا کی قیادت میں یہ گروپ لڑائی کی صورت میں ثالثی کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ گروپ نے جنگ بندی اور ایک جامع حل کے لیے بنیادی مسائل پر بات چیت کو 'تفصیلی بات چیت‘  قرار دیا ہے۔

Karte Armenien Aserbaidschan Berg-Karabach EN

بیان میں کہا گیا ہے کہ آرمینیا اور آذربائیجان، ماسکو میں 10اکتوبر کو طے شدہ جنگ بندی کی ان شرائط پر عمل کرنے کے لیے رضامند ہو گئے ہیں، جن کی پیرس میں 17اکتوبر کو ہونے والی میٹنگ میں بھی توثیق کی گئی تھی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹر پر لکھا، ’’آرمینیا کے وزیر اعظم نکول پشینیان اور آذربائیجان کے صدر الہام علیئف کو مبارک ہو جنہوں نے آدھی رات کو مؤثر ہونے والی جنگ بندی پر قائم رہنے پر اتفاق کیا۔‘‘

ہلاکتوں میں اضافہ

جنگ بندی کی یہ تازہ پیش رفت ایسے وقت پر ہوئی جب آرمینیا نے کہا ہے کہ اس لڑائی میں اب تک اس کے 974 فوجی مارے جا چکے ہیں۔ آذری اور آرمینیائی فوج کے مابین27 ستمبر کو شروع ہونے والی اس لڑائی میں آرمینیا کے تقریباً 37 شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں۔

آذربائیجان میں سنسرشپ کی وجہ سے اس کی فوجی ہلاکتوں کی تعداد کا پتہ نہیں چل سکا ہے تاہم باکو حکومت کا کہنا ہے کہ آرمینیائی حملے میں اس کے 65 شہری جاں بحق اور 300 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔

نگورنو کاراباخ وہ علاقہ ہے، جسے بین الاقوامی طور پر آذربائیجان کا حصہ تسلیم کیا جاتا ہے لیکن اس پر آرمینیائی نسل کے باشندوں کا کنٹرول ہے۔ اس متنازعہ علاقے پر قبضے کے لیے تازہ ترین لڑائی 27 ستمبر کو شروع ہوئی جو 1991-1994 کے دوران ہونے والی لڑائی کے بعد سے اب تک کی بدترین ہے۔ سن 1990 کی دہائی میں ہونے والی لڑائی میں تقریباً 30 ہزار افراد مارے گئے تھے۔

Berg-Karabach Konflikt
آرمینیا اور آذربائیجان دونوں نے ایک دوسرے پر جنگ بندی توڑنے کا الزامات لگائے تھے۔ تصویر: Aris Messinis/AFP/Getty Images

نگورنو کاراباخ میں مقامی حکام نے اتوار کے روز الزام لگایا کہ آذری افواج نے شہری آبادی پر حملے کیے لیکن باکو نے اس کی تردید کی ہے اور کہا کہ اس کے فوجی ٹھکانوں کو مورٹار گنوں،توپوں اور ٹینکوں سے نشانہ بنایا گیا۔

آذربائیجان کی حکومت نے دعوی کیا ہے کہ اس نے آرمینیا کا ایک فوجی طیارہ مار گرایا ہے لیکن آرمینیا نے اس کی تردید کی ہے۔

دریں اثنا ایرانی پاسداران انقلاب نے کہا کہ اس نے آرمینیا اور آذربائیجان سے ملحق ایرانی سرحدوں پر اپنے فوجی تعینات کر دیے ہیں۔ ایرانی خبر رساں ایجنسی نے اس حوالے سے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ 'ایرانی پاسداران انقلاب نے ایران کے قومی مفادات اور امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے یہ قدم اٹھایا ہے‘۔

روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے مطابق آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان ناگورنو کاراباخ کے تنازعے پر حالیہ جھڑپوں کے دوران اب تک تقریباً پانچ ہزار لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔

دوسری طرف ٹرمپ انتظامیہ کے ايک اعلیٰ عہديدار نے اعتماد ظاہر کیا ہے کہ اس بار جنگ بندی قائم رہے گی۔  انہوں نے کہا 'روس اور فرانس کی حمایت سے امریکی قیادت کو مزید امید ہو گئی ہے کہ جنگ بندی کا نتیجہ مسئلے کے پائیدار اور پر امن حل کی صورت میں سامنے آئے گا۔‘

ج ا / ع س (روئٹرز، ڈی پی اے)

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں