1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نگران حکومت: گیم سیاست دانوں کے ہاتھ سے نکل سکتی ہے؟

25 جولائی 2023

سیاسی مبصرین کے خیال میں حکمران اتحاد کے نگران وزیر اعظم کے نام پر عدم اتفاق کی صورت میں یہ فیصلہ بھی مقتدر حلقے خود ہی کریں گے۔ نگران وزیر اعظم کے معاملے پر پی ڈی ایم اندرونی اختلافات کا شکار ہے۔

https://p.dw.com/p/4UNPR
Pakistan | pakistanische Politiker, die sich unter dem Bündnis von PDM in Lahore treffen
پی ڈی ایم کے رہنما ایک اجلاس میں شریک ہیںتصویر: Tanvir Shahzad/DW

 پاکستان میں عام انتخابات سے قبل  نگران وزیر اعظم کے نام پر اتفاق حکمران اتحاد پی ڈی ایم میں شامل  جماعتوں کی اجتماعی سیاسی دانش کے لیے ایک بڑا امتحان بن چکا ہے۔

اس ضمن میں ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے لاہور میں مقیم  سیاسی تجزیہ کار امتیاز عالم نے بتایا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ پی ڈی ایم کی جماعتیں کئی امور پر شدید اختلافات کا شکار ہیں۔  اس کا ایک مظاہرہ اس وقت بھی دیکھنے میں آیا جب مسلم لیگ نون کے رہنما اسحق ڈار کا نام بطور نگران وزیراعظم پیش کیا گیا اور اتحادی جماعتوں کے شدید رد عمل کی وجہ سے یہ نام واپس لینا پڑا۔

پاکستان کو بھیک کا کٹورہ اٹھا کر پھینک دینا ہے، آرمی چیف

Wahlen in Pakistan I  Bilawal Bhutto Zardari
پی ڈی ایم میں شام جماعتوں کے درمیان نگران وزیر اعظم کے نام پر اتفاق کے معاملے نے اس اتحاد کو ایک بڑے سیاسی امتحان سے دوچار کر رکھا ہےتصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

حتمی منظوری 'وہاں‘ سے

امتیاز عالم کی رائے میں موجودہ حالات میں اپنے مفادات کو ترجیح دینے کی بجائے اتفاق رائے سے ملک کے جمہوری مستقبل کے حوالے سے دانشمندانہ فیصلے کرنے کا ہے۔

نواز شریف کی دبئی میں مصروفیات، پاکستان کی سیاست میں غیر متعلق نہیں ہوئے

ان کے مطابق اگر کسی موجودہ وزیر کو نگران وزیراعظم بنایا گیا تو اس سے انتخابات کی ساکھ پر سوال اٹھیں گے۔ ان کے بقول پی ڈی ایم کی جماعتوں کو اپنے اپنے ناموں پر اصرار کرنے کی بجائے باہمی مشاورت سے نگران وزیراعظم کے لئے کوئی ایک نام فائنل کرنا چاہیے۔

 تاہم ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ نام کہیں سے بھی آئے اس کی حتمی منظوری تو 'وہیں‘ سے لینی پڑے گی جہاں سے ماضی میں لی جاتی رہی ہے۔

’سب مل کر روئیں گے؟‘

پاکستان میں نگران حکومت کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اہم فیصوں کا اختیار دیے جانے کی بات بھی ہو رہی ہے۔ امتیاز عالم کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم کی جماعتوں کو اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں ایسی قانون سازی سے گریز کرنا چاہیے، جس سے نگران حکومت کو بہت زیادہ اختیارات مل جائیں اور اس کا فوکس الیکشن سے ہٹ جائے۔ ''یہ ایک بری مثال ہوگی اور یہ عمل ان سیاسی جماعتوں کے گلے پڑ جائے گا اور پھر یہ سب مل کر روئیں گے ‘‘

پاکستانی سیاست دان اور ان کی روایتی دروغ گوئی

پی ڈی ایم جماعتیں آپس میں گتھم گتھا

پاکستان میں عمران خان کی جماعت کے سیاسی منظر نامے سے ہٹنے کے باوجود کئی لڑائیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ پی ڈی ایم اسٹیبلشمنٹ کی بجائے اپنا وزیر اعظم لانے پر اصرار کر رہی ہے۔

 وہ کسی ٹیکنوکریٹ کی بجائے سیاست دان کو نگران وزیراعظم بنانے کی متمنی ہے۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے پاس نگران وزیراعظم کے لئے اپنے اپنے نام ہیں۔پاکستان کے طاقتور ہاتھوں میں بھی نگران وزیر اعظم کے حوالے سے چند ناموں کی لسٹ موجود ہے۔

الیکشن میں تاخیر کی بات کرنا غیر آئینی نہیں، اسحاق ڈار

Pakistan |  Finanzminister Ishaq Dar
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا نام بطور نگران وزیر اعظم سامنے آنے کے بعد ن لیگ کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھاتصویر: Faisal Mahmood/REUTERS

 حکومتی اتحاد کی چھوٹی جماعتوں کے پاس نگران وزیراعظم کا کوئی نام تو نہیں ہے لیکن وہ اس بات پر سیخ پا ہیں کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ ان کو اعتماد میں لیے بغیر اہم فیصلے خود ہی کر رہے ہیں۔

تجزیہ نگار خالد فاروقی کے بقول اس وقت تمام پی ڈی ایم جماعتیں مستقبل کی حکومت میں اپنا اپنا حصہ لینے کے لئے 'بارگیننگ‘ کر رہی ہیں اور نگران سیٹ اپ کی حمایت کے بدلے اپنے مفادات کے بارے میں یقین دہانی چاہتی ہیں۔

ادھر نون لیگ کے اندر بھی میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے گروپ اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے خاموش محاذ آ رائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

کیا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا نیا ’سیاسی فارمولا‘ کامیاب ہو سکے گا؟

اسحق ڈار کا پتہ کس نے صاف کروایا؟

خالد فاروقی کے مطابق پاکستان مسلم لیگ نواز کی طرف سے میاں نواز شریف نگران حکومت کی کسی بدمزگی سے بچنے اور معاشی عمل کے تسلسل کے لئے موجودہ وزیر خزانہ اور اپنے رشتہ دار اسحق ڈار کو نگران وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ کر چکے تھے۔

 اس ضمن میں ان کی طاقتور حلقوں سے بھی بات ہو چکی تھی۔لیکن شہباز شریف کیمپ کی طرف سے اس نام کو منظر عام پر لا کر انہیں کمال مہارت سے فارغ کروا دیا گیا ہے۔

 ''نون لیگ اب بھی یہ سمجھتی ہے کہ اگر ان کی معاملات پر گرفت مضبوط نہ ہوئی تو اسٹیبلشمنٹ پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر کوئی اور پوزیشن بھی لے سکتی ہے جیسا کہ ماضی میں بھی ہو چکا ہے۔

 نگران وزیر اعظم پر نون لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کا عدم اتفاق اگر بڑھ گیا تو یہ ان دونوں کے مابین محاذ آرائی کا نقطہ آغاز بھی ہو سکتا ہے‘‘

میری پارٹی کے خلاف مکمل کریک ڈاؤن جاری ہے، عمران خان

کیا الیکشن ہو جائیں گے؟

قانون کے مطابق موجودہ حکومت کے خاتمے میں تقریبا اڑھائی ہفتے باقی رہ گئے ہیں لیکن اگلے انتخابات کے حوالے سے ملک میں اب بھی ایک غیر یقینی صورتحال موجود ہے۔

 تجزیہ نگار نوید چوہدری کا خیال ہے کہ ملک میں انتخابات ہوتے دکھائی نہیں دے رہے تاہم امتیاز عالم کا کہنا ہے کہ الیکشن آگے لے جانے کے لئے ملک کا آئین توڑنا ہو گا وگرنہ الیکشن قانون کے مطابق کروانا ہی ہوں گے۔

تجزیہ کار خالد فاروقی کو بھی لگتا ہے کہ الیکشن کا وقت پر ہونا یقینی نہیں ہے۔ ان حالات میں نگران سیٹ اپ کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

پاکستانی سیاست میں اب تحریک انصاف کا مستقبل کیا ہو گا؟

پاکستان تحریک انصاف اور نگران سیٹ اپ

سینئر صحافی نوید چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ طاقتور حلقوں کی خواہش تھی کہ عمران خان کے خلاف مقدمات کے فیصلے جلد ہوں اور اس پراجیکٹ کو 'حتمی منزل‘ تک پہنچا دیا جائے لیکن مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی خواہش تھی کہ یہ کام تاخیر کا شکار ہو اور نگران حکومت ہی یہ بوجھ اٹھائے۔

چوہدری کے بقول اب آنے والےدنوں میں اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور ایوان صدر میں تبدیلیاں متوقع ہیں۔ انہیں دنوں میں عمران خان کے مقدمات کے فیصلے سامنے آئیں گے۔ کوئی نہیں جانتا کہ ان دنوں امن و امان کی صورتحال کیا رخ اختیار کرے اس لیے نگران حکومت کے تگڑا ہونے کو بھی ترجیحات میں دیکھا جا رہا ہے۔

ڈولتی معیشت پاکستان کو دیوالیہ کا شکار بھی کر سکتی تھی