1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نصابوں سے بہت دور ایک غیر نصابی دنیا

2 اکتوبر 2021

سینے سے کتابیں لگاکر کوئی طالبہ باہر نکلی ہو تو پشت پر محتسب کے کوڑے نہیں برستے۔ برقعے پھر بھی پہنے جاتے ہیں، پہنائے نہیں جاتے۔ نہ پہننے والوں کے انسانی حق پر ڈاکے نہیں ڈالے جاتے۔ فرنود عالم کا بلاگ

https://p.dw.com/p/41AuM
فرنود عالمتصویر: Privat

اِس بار بھی بے یقینی کا موسم تھا جب ہم نتھیا گلی کی طرف نکل رہے تھے۔ افغانستان کا آخری صوبہ پنجشیر بھی طالبان کے قبضے میں جاچکا تھا۔ طالبان کے مسلح اہل کار عوامی مقامات پر لگے بچوں کے جھولوں پر اچھل کود کر رہے تھے۔ ہیلی کاپٹر کے پنکھے پر رسی باندھ کر جھولے لے رہے تھے۔ ریوالوِنگ کرسیوں پر بیٹھ کر گول گول گھومے جارہے تھے۔ انہی کرسیوں کو دھکا دے کر ایک دوسرے کو ٹکریں مار رہے تھے۔ ہوائی اڈوں کے ایئر کنٹرول روم میں تیکنیکی آلات کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ مواصلاتی آلات کو ویسے ہی کانوں سے لگاکر خوش ہو رہے تھے۔ غیر ملکیوں کے استعمال میں رہنے والے کلبوں میں پڑی ورزشی مشینوں کے ساتھ چھیڑ خانیاں کر رہے تھے۔ ایئر پورٹ کی ویران انتظار گاہوں میں بھاگ بھاگ کر پھِسلیاں مار رہے تھے۔ یہاں وہاں گر رہے تھے اور خوب قہقہے لگا رہے تھے۔ دکانوں میں گھُس کر برانڈڈ ملبوسات بھی لے رہے تھے۔ خواتین کے لہنگوں اور میکسیوں پر جبوں کا گمان کر رہے تھے۔ یہ کپڑے پہن بھی رہے تھے اور پہن کر ہنسی خوشی تصویریں بھی لے رہے تھے۔

محرومی کے اِس احساس سے جنم لینے والے رویے دوسری طرف خواتین پر قیامت بن کر ٹوٹ رہے تھے۔ 21 سالہ عائشہ ہچکیوں سے رو رہی تھی اور اُس کا ہارمونیم اداس پڑا تھا۔ وہ کہہ رہی تھی، ''اِس پورے دیار میں اب کون ہے جو اندازہ کر سکے کہ کس محنت سے میں نے موسیقی کی یہ زبان سیکھی ہے۔ میں مرسکتی ہوں مگر موسیقی نہیں چھوڑ سکتی۔ عائشہ اپنے والدین کے ساتھ جیسے تیسے افغانستان سے نکل گئی تھی۔‘‘ وہ اُن فن کار دوستوں کے لیے غم زدہ تھی جو کبھی بھی افغانستان سے نکل نہیں پائیں گے۔ اُن کے خواب اُن کی آنکھوں میں ہی دم توڑ جائیں گے۔عائشہ نے ہارمونیم قریب کیا اور گیت گانے لگی، جو اس نے افغانستان میں رہ جانے والے دوستوں کے نام کیا۔ وہ جب ''دا وطن پہ مونژ گران دے‘‘ (یہ وطن ہمیں بہت پیارا ہے) پر پہنچی تو اس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ آنسو کی ایک بوند ہارمونیم پر گری اور ساز بجھ گیا۔ 

لوگ رقص کرتے ہیں، فہیمہ نوکِ ہر خار پر صوفیانہ وار رقص کرتی تھی۔ افغانستان میں رقص کرنے کا مطلب گرم تلوار کی تیز دھار پر رقص کرنا ہی تو ہے۔ ایک شام صوفی مجلس کے لیے گھنگھرو باندھ رہی تھی کہ آواز آئی، طالبان آگئے ہیں۔ اس ایک آواز نے خواب نگر کے سارے دیے بجھا دیے۔ ہر طرف دیکھنے کےبعد جواب ایک ہی تھا، زندگی اب رقص نہیں کرے گی۔ فہیمہ نے پازیبیں سمیٹیں، جلال الدین رومی کے شعر لپیٹے اور آستانے کے چاروں چراغ بجھا کر پچھلے دروازے سے نکل گئی۔ آستانے کے دروازے پر لکھ گئی، اب کوئی آئے تو کہنا کہ مسافر تو گیا۔ اور کہنا کہ بھلا اب بھی نہ جاتا لوگو؟

یہی وقت تھا جب کابل یونیورسٹی سے خواتین کی ایک تقریب کی تصویر جاری ہوئی۔ جامعہ کے آڈیٹوریم میں خواتین سٹوڈنس ہیں، جو برقعے پہنی ہوئی ہیں۔ دُکھ یہ نہیں ہے کہ انہوں نے برقعے پہنے ہوئے ہیں۔ دُکھ یہ ہے کہ یہ برقعے انہیں پہنائے گئے ہیں۔ عرش کے پانچ مذکر ترین نمائندے ان خواتین کے سروں پر نگران بن کر کھڑے ہیں۔ ان کو زعم ہے کہ مردوں کی رہنمائی کے بغیر خواتین کا وجود  اپنا مفہوم ادا نہیں کرسکتا۔ خاندان در خاندان یہ مردانہ آموختہ پڑھ پڑھ کر کئی خواتین کا بھی یہ گمان یقین میں بدل گیا ہے کہ مرد کی سرپرستی کے بغیر وہ ایک بے نشان ذرہ ہیں۔ ہمارے تام جھام اگر ہیں تو مردوں کے دم قدم سے ہیں۔ ہماری اہلیتوں میں اہلیت وہی کہلائے گی جس کی تصدیق کوئی مرد کرے گا۔ خواہ وہ مرد خود نا اہلی کا ایک چلتا پھرتا آرٹ کیوں نہ ہو۔ حیرت یہ نہیں ہے کہ پاکستان کے بیشتر شہری اس تصویر کو سراہ رہے تھے۔ تعجب یہ ہے کہ وہ لوگ بھی سراہ رہے تھے جو تسلط کی اِس فکر کو اپنے ملک اور گھر میں گوارا نہیں کرتے۔

ایسے ہر منظر کو سراہنے والوں نے کابل کی شاہراہ پر ایک منظر دیکھ کر نظریں پھیرلیں۔ ایک لڑکی کتابیں سینے سے لگاکر پڑھائی کے لیے گھر سے نکلی ہوئی ہے۔ اس کا لباس مشرق کے درزیوں نے مقامی فیتے رکھ کر سیا ہوا ہے۔ پورا دوپٹہ لیا ہوا ہے اور نظریں جھکائی ہوئی ہیں۔ وہ سہمی ہوئی ہے، مگر اِس امید پر سڑک عبور کر رہی ہے کہ طالبان بدل گئے ہوں گے۔ بیچ چوراہے پر پہنچتی ہے تو اچانک مسلح طالب ایک زور دار چابُک اس کی پشت پر برساتا ہے۔ کسی کے سُدھر جانے کی آخری امید کھلے آسمان تلے شرمندہ ہوجاتی ہے۔ وہ اُنہی قدموں واپس لوٹتی ہے تو پیچھے سے پے در پے چار مزید تازیانے برسا دیے جاتے ہیں، تاکہ دل دماغ میں خیر کی ہلکی سی کوئی توقع بھی کہیں باقی ہو تو وہ بھی ٹھیک طرح سے دُھل جائے۔

ہم نتھیا گلی پہنچے تو شام اتر رہی تھی اور موسم کا کانٹا نقطہ انجماد کی طرف بڑھ رہا تھا۔ بڑے سے ایک آتش دان میں الاؤ دہکایا جارہا تھا جس کے گرد جستجو کے مارے مسافر جمع ہو رہے تھے۔ باتیں تھیں، قہقہے تھے اور ٹھنڈی ہواؤں کی سرسراہٹ تھی۔ سوال تھے، جواب تھے اور پورے چاند کی روشنی تھی۔

جی، یہ شعور والی وہی امن ساز سلامتی فیلوشپ ہے جس کا اکثر ذکر رہتا ہے۔ کچھ بھی نیا نہیں تھا۔ سب اُسی طرح سر جوڑ کر بیٹھے تھے جس طرح پہلے بیٹھتے تھے۔ اُسی طرح کچھ دم کو رُکے، مواصلاتی آلات ایک طرف کیے، گہرا سانس لیا، خود کو پرسکون کیا،  سوچنا شروع کیا اور کچھ باتیں ذہن میں بٹھا لیں۔ علم جاننے کا دعوی نہیں ہے۔ علم تو دراصل لاعلمی کا اعتراف ہے۔ علم کے جملہ حقوق کسی عقیدے کے نام محفوظ نہیں ہوتے۔ نظریہ کوئی جامد حقیقت نہیں ہوتا اور خیال کو کوئی دوام نہیں ہے۔ جو چیز دائمی ہے وہ انسان ہے اور اس کا احترام ہے۔ پیغمبر کے فرامین میں کعبے سے بڑھ کر اسے حرمت حاصل ہے۔ خیالات آتے رہتے ہیں اور جاتے رہتے ہیں۔ لمحہِ موجود میں بہترین خیال وہی ہے جو دلیل پر استوار ہے۔ جو بات دلیل سے ماوریٰ ہے، وہ مکالمے سے خارج ہے۔ مکالمہ ہوتا ہے تو تو بات آگے بڑھتی ہے۔ فکر کی پرانی عمارتیں گرتی ہیں نئی عمارتیں کھڑی ہوتی ہیں۔ نئی عمارتیں وہی لوگ اٹھاسکتے ہیں جو پرانی عمارت ڈھانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ تنقید اور سوال کے اوزار سے ایک عمارت گرتی ہے اور مکالمے کی طاقت سے دوسری عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ خوش حالی وہیں جنم لیتی ہے جہاں تخریب برائے تعمیر کا سلسلہ یونہی بغیر کسی روک کے چلتا ہے۔

یہ بات کھُل گئی تو مسافروں نے طلب وجستجو کا زادِ راہ لیا اور تعمیر کے سفر پر نکل گئے۔ دل کی دنیا میں جو بُت رِیت روایت نے کھڑے کیے تھے اس کی بنیادوں میں پانی چھوڑا۔ فکر کی جو دیواریں نصاب نے اٹھائی تھیں ان میں بہت احتیاط سے دراڑیں ڈالیں۔ شعور کے داخلی راستوں پر جو ناکے ماحول نے لگائے تھے انہیں خاموشی سے ایک طرف رکھتے گئے۔ چلتے چلتے کہیں تھک گئے تو کچھ دیر ٹھنڈی چھاؤں میں چپ چاپ بیٹھ گئے۔ پرانے خیالات اور نئے خیالات کے بیچ کے وقفے کو تنہائی کہتے ہیں۔ ہزاروں کے مجمع میں اکیلا کر دینے والی تنہائی۔ شہر میں ویرانہ کردینے والی تنہائی۔ تنہائی کے ایسے لمحوں میں انجانی سی ایک خوشی آس پاس بھٹکتی ہے۔ اس کی زبان سمجھنے کے لیے موسیقی کا سہارا لینا پڑتا ہے جو روح کی غذا بھی ہے۔ یوگا کے آسن آزمانے پڑتے ہیں جو مادری زبان میں  کی گئی خود کلامی بھی ہے۔ بات کرنی پڑتی ہے جو دھیان بانٹنے کا بہانہ بھی ہے۔ بالآخر وہ ایک سجدہ کرنا پڑتا ہے جو ہزار سجدوں سے نجات دیتا ہے۔ یہی ہوا۔ موسیقی کی دھنوں سے دن کا آغاز کیا۔ تنہائیوں میں خدا کو یاد کیا۔ ویرانے میں یوگا کی مشقیں کیں۔ محفل میں قہقہے لگائے۔ پھر سے زادِ راہ لیا اور واپسی کی راہ چل دیے۔ 

جو راستے صاف ملے تھے، اُنہی راستوں پر اب ملبہ مل رہا تھا۔ جن کی بنیادوں میں پانی چھوڑا تھا وہ بُت اپنی جگہ چھوڑ گئے تھے۔ جن دیواروں پر دراڑیں پڑی تھیں وہ زمین بوس ہورہی تھیں۔ شعور کے داخلی راستوں پر جو ناکے ملے تھے وہ تازہ تازہ پگھلنے والے گلیشئیرز سے آنے والے پانیوں میں بہہ رہے تھے۔ یہی موقع تھا نیا زمانہ اور نئے صبح و شام پیدا کرنے کا۔ سب نے مل جل کر ملبہ اٹھایا، اُسی کو کام میں لاکر نئی عمارت کھڑی کرنا شروع کر دی۔ نئے نقشے میں ڈیڑھ ڈیڑھ انچ کے پرانے کمرے ختم کردیے گئے۔ گھٹن کا ماحول ختم کرنے کے لیے روشن دان وسیع کردیے گئے۔ کامن ایریا کا دائرہ ذرا سا اور بڑھا دیا گیا۔ گھر میں رہنے کے لیے نئے اصول وضع کر دیےگئے۔ اب کمرے کا دائرہ  مکین کا ذاتی دائرہ ہوگا۔ اس دائرے کا احترام یہ ہے کہ اب دستک دیے بغیر کوئی یونہی بے دھڑک داخل نہیں ہوگا۔ ٹی وی لاونج میں ہماری بنیاد انسانیت اور صرف انسانیت ہوگی۔اس کے علاوہ ہر ہر راگ کے لیے واپس اپنے دائرے میں جانا ہوگا۔ نئی عمارت کے داخلی دروازے پر لکھ کر لگا دیا گیا، براہ مہربانی نفرت کے جوتے باہر اتار کر اندر تشریف لائیے۔  

تو یہ سب تو پہلے بھی اسی طرح ہوتا رہا۔ جو نئی بات اِس بار ہوئی وہ شرکا کا انتخاب تھا۔ ایک ہی چھت کے نیچے 25 ایسے دماغ بیٹھے تھے جو ہزار ڈگری میں ایک دوسرے سے مختلف سوچتے تھے۔ ان کے بود وباش اور رہن سہن تک میں مشرق مغرب کا فرق تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ دو مختلف سیاروں سے لوگ چُن کر زمین پر لائے گئے ہیں۔ان میں ایسے حضرات بھی تھے جو منبر سنبھالے ہوئے ہیں اور ایسے افراد بھی جو حرم کے دھتکارے ہوئے ہیں۔ مدارس سے وابستہ ایسی لڑکیاں بھی تھیں جو مکمل عبایا میں تھیں، ایسی خواتین بھی تھیں جو سٹیج پر پرفارم کرتی ہیں۔ سچ پوچھیے تو بڑی سی مثالی ریاست کا چھوٹا سا ایک ماڈل کمرے میں سمٹ آیا تھا۔ سوچ اور مزاج کے اتنے بڑے فرق کے باجود یہاں کسی ایک کا پاؤں کسی دوسرے کی دُم پر نہیں تھا۔ اپنی ناک سے آگے کی دنیا میں ناک دینے کا کسی کو شوق نہیں تھا۔ کسی کے پہناوے سے کسی کو دشواری نہیں تھی۔ تنقید سننے کا حوصلہ سب میں برابر تقسیم ہوگیا تھا۔ سوال کا حق سب کو میسر تھا اور جواب پر پکڑ صرف دلیل کی بنیاد پر ہو رہی تھی۔ یہی تو چاہیے۔ انسان کی بے ساختگی کو معاشرے میں یہی رواداری تو چاہیے۔

یہ سب دیکھ کر میرا یہ احساس پختہ ہو رہا تھا کہ انسان کتابوں اور استادوں سے بھی سیکھ سکتا ہے، مگر مشاہدے کو ہر چیز پر فضیلت حاصل ہے۔ سلامتی فیلوشپ میں اساتذہ کی باتیں بھی کام کرگئی ہوں گی، مگر جو واردات باہمی میل میلاپ نے ڈالی ہے، وہ کسی چیز نے نہیں ڈالی۔ محرومی کا احساس مطالعے کی کمی اور دولت کی تنگی سے جنم نہیں لیتا۔ مواقع اور مشاہدے کا دائرہ تنگ کردینے سے ارتقا کا سفر سست ہوتا ہے۔  قافلے نکل جاتے ہیں ہم پیچھے رہ جاتے ہیں۔حسرتیں بڑھ جاتی ہیں جسے ہم قوتِ ایمانی اور حب الوطنی کا عنوان دے کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔

اپنے اپنے دائرے میں بیٹھے رہیں تو رائے قائم کرنا اور کچھ بھی کہہ دینا بہت آسان ہوجاتا ہے۔ اپنے دائروں سے نکل کر باہم مل بیٹھتے ہیں تو آنکھ میں حیا اتر آتی ہے اور جملوں میں احتیاط کے رنگ بھر جاتے ہیں۔ یہیں سے اٹھنے والا معاشرہ ہوتا ہے جس میں عائشہ کو رونا نہیں پڑتا اور خواتین کی فٹبال ٹیم کو ہجرت نہیں کرنی پڑتی۔ جلال الدین رومی کی مرید کا آستانے کے چراغ بھی بجھانے نہیں پڑتے۔ سینے سے کتابیں لگاکر کوئی طالبہ باہر نکلی ہو تو پشت پر محتسب کے کوڑے نہیں برستے۔ برقعے پھر بھی پہنے جاتے ہیں، پہنائے نہیں جاتے۔ نہ پہننے والوں کے انسانی حق پر ڈاکے نہیں ڈالے جاتے۔   

اگر ایسی ریاست کبھی قائم ہوگئی اور مؤرخ کی تجزیاتی صلاحیت اچھی ہوئی، تو اس ریاست کا کریڈٹ وہ اُن محفلوں کو ضرور دے گا جو قومی نصاب سے دور بہت دور کہیں غیرنصابی سیاروں پر سجائی جاتی تھیں۔