1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نازی سوشلسٹ گروپ، پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ پر ڈی ڈبلیو کا تبصرہ

مارسیل فُرسٹیناؤ / عدنان اسحاق 23 اگست 2013

جرمنی میں نازی سوشلسٹ انڈر گراؤنڈ نامی گروہ کے ہاتھوں غیر ملکیوں کے قتل سے متعلق معاملات کی تحقیقات کے لیے جرمن پارلیمان کی ایک کمیٹی بنائی گئی تھی۔ گزشتہ روز اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کر دی۔

https://p.dw.com/p/19V9H
تصویر: picture-alliance/dpa

اس رپورٹ میں قتل کی ان وارداتوں کی تفتیش میں کوتاہی برتنے پر سلامتی کے ذمہ دار اداروں کوکڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ڈوئچے ویلے کے تبصرہ نگار مارسیل فُرسٹیناؤ کے بقول پارلیمانی کمیٹی نے اس سلسلے میں بھرپور انداز میں اپنی ذمہ داریاں نبھائی ہیں۔

مارسیل فُرسٹیناؤ کے بقول اب سیاستدانوں اور معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ وہ پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ میں پیش کردہ تجاویز پرعمل کریں۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ آئینی سلامتی کے ذمہ داروں کی جانب سے کڑی نگرانی کے باوجود 1990ء کی دہائی کے اواخر میں دائیں بازو کے انتہا پسند اچانک منظر عام سے غائب ہو گئے تھے۔ اس دوران نظروں سے اوجھل رہتے ہوتے انہوں نے قتل کی یہ وارداتیں کی تھیں۔ انہوں نے تارکین وطن کا پس منظر رکھنے والے نو افراد کو ایک ہی ہتھیار استعمال کرتے ہوئے ہدف بنا کر قتل کیا تھا۔ نومبر2011ء میں پولیس کو دائیں بازو کے اس گروپ کے دو مرد ارکان مردہ حالت میں ملے تھے۔ ان دونوں نے گرفتاری سے بچنے کے لیے خود کشی کر لی تھی۔ اس کے بعد ان کی تیسری ساتھی بیاٹے چَیپے کچھ عرصہ مفرور رہنے کے بعد پولیس کے سامنے پیش ہو گئی تھی۔

Abschlussbericht NSU-Untersuchungsausschuss
مارسیل فُرسٹیناؤ کے بقول اب سیاستدانوں اور معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ وہ پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ میں پیش کردہ تجاویز پرعمل کریںتصویر: picture-alliance/dpa

ابتدائی سالوں میں خیال کیا جاتا رہا کہ ترک پس منظر رکھنے والے نو اور ایک یونانی تارک وطن کے قتل میں ایک منظم جرائم پیشہ گروہ کا ہاتھ ہے۔ اس سلسلے میں مرنے والوں کے لواحقین پر بھی خصوصی طور پر شک کیا جاتا رہا۔ تفتیشی حکام نے مقتولین کا تعلق مافیا اور منشیات فروشوں سے جوڑا اور ان پر رقم کی غیر قانونی منتقلی تک کے الزامات عائد کیے۔

ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار کہتے ہیں کہ اس دوران تفتیشی افسران کی توجہ اس جانب گئی ہی نہیں کہ ان وارداتوں کے پیچھے نسل پرستانہ محرکات بھی ہو سکتے ہیں۔ اس تناظر میں ایک دستاویز میں تحریر ہے کہ پولیس کا شک مختلف سمت میں ہونے کی وجہ سے دائیں بازو کے انتہا پسند گروپ کے لیے اپنی کارروائیاں جاری رکھنا اور بھی آسان ہو گیا تھا۔

ڈوئچے ویلے کے تبصرہ نگار کے بقول اس کے باوجود یہ لازمی اور ضروری ہے کہ جرمن پارلیمان کی تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ کو واضح انداز میں یہ کہنا چاہیے کہ غیر ملکیوں کے قتل کی یہ وارداتیں سرکاری اہلکاروں کی نا اہلی کا ایک تاریخی ثبوت ہیں۔ اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ یہ کمیٹی بتائے کہ نازی سوشلسٹ انڈر گراؤنڈ نامی گروہ کے ہاتھوں اس تباہی سے کیا سبق سیکھا گیا ہے۔ مارسیل فُرسٹیناؤ مزید کہتے ہیں کہ اس حوالے سے پہلا قدم اٹھا لیا گیا ہے اور وہ ہے ایک مرکزی ڈیٹا بینک کا قیام۔ اس میں دائیں بازو کی انتہاپسندانہ کارروائیوں اور نسل پرستانہ جرائم سے متعلق اعداد و شمار جمع کیے جائیں گے۔