1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتامریکہ

نائن الیون متاثرین کے لواحقین افغان رقم کے حقدار نہیں، جج

22 فروری 2023

امریکی جج کا کہنا ہے کہ چونکہ امریکہ نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا، اس لیے متاثرین افغان بینک کے اثاثے ضبط نہیں کر سکتے۔ بائیڈن انتظامیہ نے افغانستان کی منجمد رقم کو متاثرین میں تقسیم کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔

https://p.dw.com/p/4NoXx
Afghanistan Kinderarbeit Ziegelfabrik
تصویر: DW/O. Didar

امریکہ کے ایک جج نے 21 فروری منگل کے روز فیصلہ سنایا کہ 11 ستمبر سن 2001 کے دہشت گردانہ حملوں کے متاثرین کے لواحقین کو افغانستان کے مرکزی بینک سے رقوم حاصل کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

امریکہ: ٹی ٹی پی اور القاعدہ کے چار رہنما عالمی دہشت گرد قرار

امریکی ڈسٹرکٹ جج جارج ڈینیئلز نے کہا کہ متاثرین کے اہل خانہ کو افغانستان کے بینک سے ضبط کی گئی رقم دینے کے لیے پہلے اس بات کا اندازہ لگانے کی ضرورت ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت قانونی ہے یا نہیں۔ جج کے مطابق اس کے بغیر آئینی طور پر یہ فیصلہ درست نہیں ہو گا۔

امریکی پابندیاں باہمی تعلقات کے قیام میں رکاوٹ، طالبان

جج ڈینیئلز نے لکھا کہ رقم کی ادائیگی کے مستحق پہلے سے طے شدہ فیصلوں کے مطابق، ''ہماری قوم کی تاریخ کے بدترین دہشت گردانہ حملے کے متاثرین اسے پانے کے مکمل طور پر حقدار ہیں، لیکن وہ افغانستان کے مرکزی بینک کے فنڈز سے ایسا نہیں کر سکتے۔''

طالبان کو تنہا کرنے کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے، بلاول

جج کا مزید کہنا تھا کہ ''سابق اسلامی جمہوریہ افغانستان یا افغان عوام نہیں بلکہ 9/11 کے حملوں میں اپنی ذمہ داری کے لیے طالبان کو یہ رقم ادا کرنی چاہیے۔''

قیدیوں کا تبادلہ، طالبان نے امریکی انجینئر کو رہا کر دیا

امریکی انتظامیہ کا فیصلہ

فروری 2022 میں امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے ایک متنازعہ ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ افغانستان کے مرکزی بینک کے سات ارب ڈالر کے منجمد اثاثوں کو افغان عوام اور 9/11 کے متاثرین کے ان خاندانوں کے درمیان تقسیم کیا جائے گا، جنہوں نے حملے کے لیے طالبان پر مقدمہ کیا تھا۔

Afghanistan Armut Dorf
افغانستان اس وقت شدید معاشی مشکلات سے دو چار ہے اور افغان باشندے کرہ ارض پر بدترین انسانی بحران کا سامنا کرنے والی قوم ہےتصویر: Getty Images/B.Mehri

گرچہ طالبان نیو یارک کے ٹوئن ٹاورز پر حملوں میں براہ راست ملوث نہیں تھے، تاہم متاثرین کے اہل خانہ کے وکلاء کا استدلال یہ تھا کہ اس نے حملہ آور گروپ القاعدہ کو فعال کرنے میں مدد کی تھی اور گروپ کو افغانستان میں کام کرنے کی اجازت دی گئی۔

اسی بنیاد پر عدالت نے طالبان کو متاثرین کو معاضہ دینے کا فیصلہ سنایا تھا۔ 

تاہم ایک افغان نژاد امریکی کارکن بلال عسکری یار نے بائیڈن انتظامیہ کے اس حکم نامے پر یہ کہہ کر اعتراض کیا تھا کہ نائن الیون کے حملے سے افغان عوام کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ انہوں نے اس فیصلے کو غریب ملک کی عوام سے رقوم کی چوری قرار دیا تھا۔

امریکی ڈسٹرکٹ جج کا یہ تازہ فیصلہ اگست 2022 میں اس سابقہ فیصلے کے عین مطابق ہے، جس میں امریکی مجسٹریٹ جج سارہ نیٹ برن نے بھی یہ سفارش کی تھی کہ نائن الیون کے متاثرین طالبان کے خلاف عدالتی فیصلوں کو پورا کرنے کے لیے، افغانستان کے مرکزی بینک سے نقد رقم نہیں ضبط کر سکتے۔

اس وقت بھی جج نیٹ برن نے کہا تھا کہ ایسا کرنے کا مطلب یہ ہو گا کہ طالبان کو افغانستان کا جائز حکمران تسلیم کیا جائے، جو ''صرف امریکی صدر ہی کر سکتے ہیں۔''

اگست 2021 میں جب سے طالبان نے کابل کی امریکی حمایت یافتہ حکومت کو طاقت کے زور پر بر طرف کر دیا اور اقتدار سنبھال لیا، تو بائیڈن انتظامیہ نے اس گروپ کو ملک کی حکمران جماعت کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

تاہم امریکہ میں نائن الیون کے متاثرین کی پیروی کرنے والوں نے بائیڈن انتظامیہ کے اس فیصلے کو چیلنج کیا اور اسے ''غلط فیصلہ'' قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف اپیل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

اس گروپ کا کہنا ہے کہ امریکی انتظامیہ نے طالبان کو افغانستان کا حکمران تسلیم نہ کر کے نائن الیون کمیونٹی کے 10,000 سے زیادہ افراد کو طالبان سے معاوضہ لینے کے حق سے محروم کر دیا ہے۔

 ایک امریکی تنظیم 'افغانز فار اے بیٹر ٹومارو' کے شریک بانی عرش عزیز زادہ نے عدالت کے اس تازہ فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت کرہ ارض پر بدترین انسانی بحران کا سامنا کرنے والی قوم کے خزانوں پر شب خون مار کر انصاف نہیں ملے گا۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز، نیوز ایجنسیاں)

’تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، امریکا پاکستانی تحفظات سمجھے‘