نئی جرمن حکومت، نیا سیاسی اتحاد
1 اکتوبر 2009جرمنی میں 2009 ء کے پارلیمانی انتخابات کے بعد کرسچن ڈیمو کریٹک یونین، کرسچن سوشل یونین اور فری ڈیمو کریٹک پارٹی کی مخلوط حکومت کے برسر اقتدار آنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔
ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد ابتدائی نتائج سامنے آنے کے آغاز پرہی جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا: ’’ میں تمام جرمن باشندوں کی چانسلر بننا چاہتی ہوں تاکہ ہمارے عوام کے حالات بہتر ہو سکیں۔‘‘
کرسچن ڈیموکریٹ لیڈر اور جرمنی کی پہلی خاتون چانسلر کے اس بیان نے 60 سال قبل، پہلی جرمن وفاقی پارلیمان کے انتخابات میں چانسلر منتخب ہونے والے کرسچن ڈیمو کریٹ لیڈر کونراڈ آڈیناور کی یاد تازہ کردی۔ جنہوں نے 21 اگست 1949ء میں شہر بون کے نزدیک Rhöndorf کے علاقے میں کرسچن ڈیموکریٹک اور کرسچن سوشل یونین کے سیاستدانوں کے ایک غیر رسمی اجلاس کے موقع پر یہ تاریخی بیان دیا تھا : ٫ صدر کسی اور کو بننا چاہئے، میں چانسلر بننا چاہتا ہوں،:
جرمنی کی سیاسی تاریخ میں چانسلر کے عہدے کے کرسچن ڈیموکریٹ امیدواروں کو زیادہ تر ایک سے زیادہ مرتبہ چانسلر بننے کے مواقع ملے ہیں۔
1982ء میں پارلیمان کی طرف سے چھٹے جرمن چانسلر منتخب ہونے والے کرسچن ڈیموکریٹ لیڈر ہلموٹ کوہل کو جرمنی کی تاریخ میں طویل ترین عرصے تک چانسلر رہنے کا اعزاز حاصل ہے، انہیں ریکارڈ چانسلر کہا جاتا ہے جو 1982ء سے 1999ء تک جرمن چانسلر رہے۔ انگیلا میرکل کو جرمن سیاست میں لانے والے دارصل کوہل ہی تھے۔ 2005 ء کے بعد اب 2009 ء کے پارلیمانی انتخابات میں انگیلا میرکل اور ان کی پارٹی سی ڈی یو کی دوبارہ کامیابی جرمنی کی موجودہ سیاسی صورتحال میں ایک قسم کے انتشار کی نشاندہی بھی ہے۔
جرمن عوام نے دوسری مدت کے لئے بھی پچپن سالہ چانسلر انگیلا میرکل پر بھرپور اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انہیں ہی مینڈیٹ دیا ہے۔ستائیس ستمبر کے پارلیمانی انتخابات میں انگیلا میرکل کی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین CDU اور اس کی حلیف جماعت کرسچن سوشلسٹ یونین CSU کو تقریباً 34 فی صد ووٹ حاصل ہوئے جبکہ آزاد تجارت کی حامی ’فری ڈیموکریٹک پارٹی‘ FDP کو حیران کن طور پر تقریباً 15 فی صد ووٹ ملے ہیں۔
اب چانسلر انگیلا میرکل کو نئی مخلوط حکومت کے قیام کے لئے سینٹر۔لیفٹ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی SPD کی حمایت درکار نہیں ہے۔
جرمنی کے 17ویں پارلیمانی انتخابات میں لبرل فری ڈیموکریٹک پارٹی نے زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ FDP کے سربراہ گیڈو ویسٹر ویلے نے اپنی پارٹی کی کامیابی پر مسرت کے ساتھ ساتھ بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ انکے حامیوں کو اس خوشی کے وقت میں ہواؤں میں اڑنے کے بجائے سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ شہری حقوق سے متعلق ان کی پارٹی کی پالیسی سب سے بہتر داخلہ پالیسی ہے اور یہ کہ شہریوں کے حقوق کا از سر نوء احترام کرنا ہوگا: ’’فری ڈیمو کریٹک پارٹی کے سربراہ گیڈو ویسٹر ویلے ہی غالباً آئندہ حکومت کے وزیر خارجہ ہوں گے۔‘‘
2005 ءکے پارلیمانی انتخابات کے بعد سی ڈی یو اور ایس پی ڈی کی مخلوط حکومت برسر اقتدار آئی تھی۔ اس کے بعد سے چند داخلہ اور خارجہ پالیسیوں پر دونوں اتحادی پارٹیوں کے مابین معمولی اختلافات دیکھنے میں آئے تاہم یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ افغانستان میں جرمن فوج کی تعیناتی سے لے کر تنازعہ مشرق وسطی کے ضمن میں کرسچن ڈیمو کریٹس اور سوشل ڈیموکریٹس کے مابین کافی حد تک ہم آہنگی پائی جاتی تھی۔
تاہم 2009 ء کے پارلیمانی انتخابات میں ایس پی ڈی کو ملنے والے محض 23 فیصد ووٹ اس امرکا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ جرمن عوام کے اعتماد کو ایس پی ڈی کی طرف سے ٹھیس پہنچی ہے۔
الیکشن نتائج کے مطابق شٹائن مائر کی جماعت SPD کو پارلیمانی انتخابات میں محض 23 فی صد ووٹ ملے جو کہ سن 2005 ءکے الیکشن کے مقابلے میں کم از کم 11 فی صد کم ہیں۔
بعض جرمن سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے میں سوشل ڈیموکریٹس کی شکست کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پچھلے چار سال کے دوران مخلوط جرمن حکومت نے چانسلر انگیلا میرکل کی سربراہی میں جو بھی اچھے کام کئے ان کا کریڈٹ میرکل اور CDU کو ملا جبکہ جو کام اچھے نہیں سمجھے گئے ان کے لئے SPD کو ذمہ دار قرار دیا گیا۔
دریں اثناء فرانک والٹر اشٹائن مائر کو آئندہ پارلیمان میں اپوزیشن لیڈر چن لیا گیا ہے۔ تاہم ان کی اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے تقرری خود سوشل ڈیمو کریٹ حلقوں میں متنازعہ سمجھی جا رہی ہے۔
اس بار کے پارلیمانی انتخابات میں ہر کسی کے لئے تعجب کا باعث بننے والی کامیابی فری ڈیمو کریٹک پارٹی ایف ڈی پی کے حصے میں آئی۔
جرمنی کی آئندہ حکومت تشکيل دينے والی جماعتوں سی ڈی يو اور ايف ڈی پی ميں خارجہ اور سلامتی کی حکمت عملی کے سلسلے ميں بہت سے نکات پر اتفاق رائے پايا جاتا ہے ليکن سب پر نہيں، مثلاً افغانستان کے بارے ميں وہ متفق نہيں ہيں۔ ايف ڈی پی کا کہنا ہے کہ سی ڈی يو اور ايس پی ڈی کی سابقہ مخلوط حکومت نے افغانستان کی تعمير نوکے سلسلے میں کوتاہی کی ہے۔
ايف ڈی پی کے قائد اور وزارت خارجہ کے عہدے کے طلبگار گيڈو ويسٹر ويلے کہتے ہيں کہ جرمن حکومت نے خاص طور پر افغان پوليس کی تربيت کے حوالے سے اپنے وعدے پورے نہيں کئے: ’’ہم ان ذمے داريوں ميں سے تقريباًصرف آدھی پوری کر رہے ہيں، جو جرمنی نے عالمی سطح پر قبول کی ہيں۔ افغانستان کی اپنی پوليس کی تربيت کے کام ميں ايسی لا پرواہی نہيں کی جانی چاہئے۔‘‘
ويسٹر ويلے کا کہنا ہے کہ نيٹو اور غيرملکی افواج تب ہی افغانستان سے واپس آ سکتی ہيں، جب افغان پوليس اور فوج کو اچھی تربيت دی جا چکی ہو۔ ان کے مطابق افغانستان سے جرمن فوج کے عجلت ميں انخلاء سے افغانستان کے علاوہ جرمنی کو بھی خطرات لاحق ہوں گے۔ اس پر ويسٹر ويلے اور چانسلر ميرکل کے مابين اتفاق رائے ہے۔ ويسٹر ويلے نے کہا کہ وہ جرمن فوج کو جلد ازجلد افغانستان سے واپس بلانا چاہتے ہيں ليکن ايسا بدحواسی ميں نہيں کيا جانا چاہيے۔
ويسٹر ويلے نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ جرمنی ميں نصب بقيہ امريکی ايٹمی ہتھيار اگلی آئينی مدت کے دوران ہٹا لئے جائيں گے اور تخفيف اسلحہ کی سياست بھی ايک بار پھر جرمنی کا طرہء امتياز بن جائے گی: ’’ اسلحہ بندی والے برسوں کے بعد اب پھر وہ دور شروع ہونا چاہيئے، جس ميں جرمن اور يورپی خارجہ سياست کی طرف سے دنيا بھر کو اسلحے ميں تخفيف کا پيغام ديا جائے۔ يہ ہم فری ڈيموکريٹس کی خارجہ اور يورپی پاليسی کا بنيادی نکتہ ہے۔‘‘
ويسٹر ويلے يہ سمجھتے ہيں کہ جرمن حکومت امريکی صدر اوباما کے بارے ميں کچھ زيادہ جوش و خروش کا مظاہرہ نہيں کرتی اور پولينڈ کے ساتھ بھی جرمن روابط کو اور بہتر بنايا جا سکتا ہے۔ تاہم جرمنی کے اگلے ممکنہ وزير خارجہ ويسٹر ويلے خارجہ سياست ميں عالمی سطح پر کافی تجربہ نہيں رکھتے۔
رپورٹ: کشور مصطفٰی
ادارت: عدنان اسحاق