نئی امریکی جوہری پالیسی، چین نے بھی مخالفت کر دی
4 فروری 2018چینی حکومت کے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکا نے جوہری ہتھیار سازی کی پالیسی میں چین کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کیا ہے، وہ اِدھر اُدھر کے اندازوں پر مبنی ہیں۔ چینی وزارت دفاع کے مطابق بیجنگ حکومت کے اپنی فوج کو جدید ضروریات سے ہم آہنگ کرنے کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔
امریکی وزارت دفاع نے دو فروری کو اپنی جوہری پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں نئی جوہری ہتھیار سازی کے ارادوں کا اظہارکیا۔
امریکا اور چین کے تعلقات درست سمت میں بڑھنے چاہییں، شی جن پنگ
’دہشت گردوں کی ڈرٹی بم سازی کے امکانات بہت زیادہ ہیں‘
انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی سالانہ میٹنگ کا اختتام
امریکی وزارت دفاع کا خیال ہے کہ اگلی دہائیوں میں جوہری حملوں کے خطرات میں شدید اضافے کا امکان ہے۔ اس نئی جوہری پالیسی میں بنیادی فوکس تو روس پر رکھا گیا ہے لیکن چین کی جوہری ہتھیار سازی کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا۔
چینی وزارت دفاع نے امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کی نئی پالیسی کے حوالے سے واضح طور پر کہا کہ وہ اس کی مخالفت کرتے ہیں اور ویسے بھی چین نے اپنی جوہری قوت کو قومی سلامتی کے تقاضوں کی روشنی میں کم سے کم سطح پر رکھا ہوا ہے۔ چینی وزارت دفاع کے ترجمان نے یہ بھی کہا کہ اس وقت دنیا میں جوہری ہتھیاروں کا سب سے بڑا ذخیرہ امریکا کے پاس ہے۔
اتوار کے روز چینی وزارت دفاع کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ اس کی توقع کی جاتی ہے کہ امریکا سرد جنگ کی ذہنیت اور کیفیت سے باہر نکلنے کی کوشش کرے گا کیونکہ اس کا موجودہ حالات میں کوئی فائدہ دکھائی نہیں دیتا ہے۔
دوسری جانب تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سن 2012 میں منصب صدارت سنبھالنے کے بعد شی جن پنگ نے ملکی جوہری قوت کو بہتر بنانے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے اور وہ سن 2050 تک اپنی فوج کو ’ورلڈ کلاس‘ بنانے کے عزم کا اظہار گزشتہ برس اکتوبر میں کر چکے ہیں۔
چین کے ہمسایہ ملکوں کا بھی خیال ہے کہ چینی پیپلز لبریشن آرمی اپنے ہتھیاروں کو اپ گریڈ کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہتھیاروں پر نگاہ رکھنے والے تھنک ٹینک سپری کے مطابق چین کا جوہری ذخیرہ 270 وار ہیڈز پر مشتمل ہے جب کہ امریکا کے پاس ایسے 6800 جوہری وار ہیڈز ہیں۔