1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’میں کوئی بھوت نہیں‘، بھارتی شہری ’وجود‘ کی جنگ میں

عاطف بلوچ15 جولائی 2015

بھارتی شہری رام جنم موریا گزشتہ دو برسوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش میں ہے کہ وہ مرا نہیں بلکہ زندہ ہے۔ وہ اس مقصد کے لیے اعظم گڑھ کے مجسٹریٹ کے دفتر کے لاتعداد چکر کاٹ چکا ہے۔

https://p.dw.com/p/1FyvH
’بھارت میں شہری ترقی اور آبادی میں اضافے کے باعث کچھ لوگ زمین حاصل کرنے کے لیے اتنے دیوانے ہو چکے ہیں‘تصویر: picture-alliance/dpa

یہ بھارتی شہری دستاویزی شواہد کی بنیاد پر ملکی حکام کو یہ یقین دہانی کرانے کی کوشش میں ہے کہ وہ کوئی ’بھوت‘ نہیں بلکہ ایک زندہ انسان ہے۔ موریا نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی جھنجھلاہٹ کچھ یوں ظاہر کی، ’’یہ ایک پریشان کن امر ہے۔ میں زندہ ہوں۔ تاہم وہ (حکام) کہتے ہیں کہ میں مر چکا ہوں۔‘‘

65 سالہ موریا بھارتی ریاست اتر پردیش کے اُن سینکڑوں افراد میں سے ایک ہے، جو حکام کے پاس موجود سرکاری ریکارڈ کے مطابق مر چکے ہیں۔ موریا کے رشتہ داروں نے ایک منصوبے کے تحت اس کا جعلی ڈیتھ سرٹیفیکیٹ حاصل کیا اور یوں وہ موریا کو مردہ قرار دلوا کر اس کی جائیداد پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ موریا الزام عائد کرتا ہے کہ اس کے بھائی نے یہ منصوبہ تیار کیا اور اس مقصد کے لیے اس نے متعلقہ حکام کو رشوت دی اور نقلی ڈیتھ سرٹیفیکیٹ حاصل کر لیا۔

اس طرح کے دیگر کیسوں میں متاثرین کے کزن، بھانجے، بھتیجوں اور حتٰی کہ ان کی اپنی اولاد نے جھوٹے کاغذات بنوا کر اپنے عزیزوں کے ڈیتھ سرٹیفیکیٹ حاصل کیے اور ان کی زمینوں پر قابض ہو گئے۔ اس طرح کے زیادہ تر کیس بھارت کی گنجان آباد ترین ریاست اتر پردیش میں ہی دیکھے گئے ہیں۔ اتر پردیش کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ بھارت کی دیگر ریاستوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ بدعنوان ہے۔

ریاستی دارالحکومت لکھنؤ سے تین سو کلو میٹر دور مشرق میں واقع ضلع اعظم گڑھ میں جھوٹی اموات کے کیس سب سے زیادہ درج کرائے گئے ہیں۔ اس علاقے کا ایک رہائشی بہاری بھی ہے، جو اسی فراڈ کا شکار ہوا تھا۔ بعد ازاں اس نے ’مریتک سنگھ‘ نامی ایک تنظیم بنا لی، جس کا مقصد ایسے افراد کی مدد کرنا ہے جو حکومتی ریکارڈ میں مردہ قرار دے دیے گئے ہیں۔ بہاری کے بقول، ’’مجھے جب معلوم ہوا کہ میں کاغذوں میں مر چکا ہوں تو میں پریشانی سے بوکھلا گیا۔ میں دفتروں کے چکر لگاتا رہا کہ ثابت کر سکوں کہ میں زندہ ہوں۔‘‘

بہاری کی کوششیں

بہاری نے مزید کہا کہ اس قسم کی صورتحال میں ’آپ اپنے وجود کے بارے میں شکوک کا شکار بھی ہو جاتے ہیں‘۔ ان کا کہنا تھا، ’’آپ کے دشمن آپ کو ہلاک کرنے کے لیے اپنے ہاتھ خون میں نہیں رنگتے، لیکن آپ ان کے لیے مردہ ہو جاتے ہیں۔‘‘ اپنی مہم کو عام کرنے کی خاطر دو مرتبہ وزیر اعظم کے عہدے کے لیے انتخابات لڑ چکنے والے بہاری کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم ملک بھر میں ایسے دو سو کیسوں کی پیروی کر رہی ہے۔

دوسری طرف حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس قسم کے فراڈ کا خاتمہ کر دیا ہے اور کچھ لوگ اپنی شہرت کی خاطر اس طرح کے جھوٹے الزامات عائد کرتے ہیں۔ اعظم گڑھ کے مجسٹریٹ ایل وائی سوہاس نے اے ایف پی کو بتایا کہ زیادہ تر ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کیا جا چکا ہے۔ یوں کسی شخص کے ذاتی کوائف کے بارے میں جھوٹی تبدیلی ممکن نہیں ہے، ’’کچھ لوگ شہرت کی خاطر یہ دعوے کر رہے ہیں۔‘‘

Indien Urteil Gerichtsprozess 13.09.2013
بھارتی شہری رام جنم موریا متعلقہ حکومتی دفاتر کے چکر لگا لگا کر تھک چکا ہےتصویر: Roberto Schmidt/AFP/Getty Images

اتر پردیش ریاست کے ایک اور ضلع کے رہائشی جگدیش گپتا کی کہانی ہی الگ ہے۔ وہ اپنے وجود کو ثابت کرنے کی کوشش میں ہے۔ باون سالہ گپتا سرکاری ریکارڈ کے مطابق پیدا ہی نہیں ہوا کیونکہ کاغذات کے مطابق اس کا باپ پچپن میں ہی مر گیا تھا۔ مٹھائی کا کاروبار کرنے والے گپتا نے اے ایف پی کو بتایا کہ میں اپنے حق کی جائیداد حاصل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا لیکن میں سرکاری ریکارڈ کو درست کروانے کا خواہشمند ہوں۔

گپتا کے بقول وہ نہیں چاہتا کہ مرنے کے بعد اس کے بچے بھی اپنے وجود کو ثابت کرنے کی کوشش میں لگ جائیں، ’’میرا اور میری اولاد کا وجود میرے باپ سے جڑا ہوا ہے۔ میں اپنے لیے نہیں بلکہ اپنی آنے والی نسل کی خاطر لڑ رہا ہوں۔‘‘ اتر پردیش میں انسٹیٹیوٹ برائے سماجیات سے منسلک محمد ارشد کہتے ہیں کہ اس طرح کے جھوٹے کیسوں کے پیچھے دراصل جائیداد حاصل کرنا ایک انتہائی اہم محرک ہے۔ ارشد کے بقول بھارت میں شہری ترقی اور آبادی میں اضافے کے باعث کچھ لوگ زمین حاصل کرنے کے لیے اتنے دیوانے ہو چکے ہیں کہ وہ اپنے خونی رشتوں کو بھی دھوکا دینے پر تیار ہوتے ہیں۔