1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میریٹل ریپ اگر جرم تو شادی کا بائیکاٹ

30 جنوری 2022

کچھ بھارتی مردوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر بیوی سے زبردستی جنسی عمل کو مجرمانہ سرگرمی قرار دیا گیا تو وہ شادی جیسے اہم سماجی بندھن کا ہی بائیکاٹ کر دیں گے۔

https://p.dw.com/p/46EIJ
Indien | Protest gegen häusliche Gewalt in Kalkutta
تصویر: Saikat Paul/Pacific Press/picture alliance

بھارت میں مردوں کا ایک حلقہ اس مجوزہ قانون پر برہم ہے، جس کے تحت بیوی کے ساتھ زبردستی جنسی عمل ریپ قرار دیے جانے کی بات کی گئی ہے۔

ان مردوں کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو میاں بیوی کا یہ بندھن خطرناک نوعیت اختیار کر سکتا ہے اور مردوں کو بیویوں کے جھوٹے الزامات کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔

یہ مرد سوشل میڈیا پر ایک مہم بھی چلا رہے ہیں، جس میں اس قانون کے خلاف عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ معاملہ ایک ایسے وقت میں گرما گرم بحث کا موجب بنا ہے، جب نئی دہلی کی ایک عدالت اس تجویز پر غوروخوص کر رہی ہے۔

اگرچہ بھارت میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران ریپ کے حوالے سے انتہائی سخت قانون سازی کی گئی ہے تاہم یہ ایسے تیس ممالک کی فہرست میں شامل ہے، جہاں خاوند کا بیوی کی رضامندی کے بغیر اس کے ساتھ جنسی عمل قابل سزا جرم نہیں ہے۔

آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمن ایسوسی ایشن اور Rit فاؤنڈیشن کی نمائندہ وکیل کارُونا نندی کے بقول ریپ، ریپ ہی ہوتا ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کی ایک فیصلے کا حوالہ بھی دیا، جس میں واضح انداز میں کہا گیا ہے، ''زنا کار، زنا کار ہی ہوتا ہے، متاثرہ خاتون کا اس کی بیوی ہونا اس حقیقت کو بدل نہیں سکتا کہ وہ زنا کار نہیں ہے۔‘‘ 

مردوں کو سزا کا خوف

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی ایک عدالت اس معاملے پر قانونی حوالوں سے غورو فکر کر رہی ہے تو دوسری طرف کچھ مردوں نے سوشل میڈیا پر ایک مہم میں خبردار کیا ہے کہ اگر بیوی کے ساتھ ریپ کو قابل سزا جرم بنایا گیا تو وہ شادی جیسے سماجی بندھن کا ہی بائیکاٹ کر دیں گے۔

ایسے مردوں کا کہنا ہے کہ اگر 'میریٹل ریپ‘ یعنی اہلیہ کے ساتھ زبردستی سیکس کو جرم قرار دیا گیا تو شادی شدہ مردوں کو جھوٹے مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ان کا یہ مؤقف بھی ہے کہ شادی سے متعلق بنائے گئے قوانین کے تحت متعدد مردوں کو پہلے ہی جھوٹے مقدمات کا سامنا ہے، جن میں شوہروں پر جہیز سے لے کر جنسی تشدد جیسے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

اس گروہ کا کہنا ہے کہ اس طرح کا قانون شادی کے بندھن کی بنیادوں اور مروجہ اقدار کی تباہی کا باعث بنے گا اور معاشرتی ڈھانچہ تباہ ہو جائے گا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اس اہم سماجی رشتے کا تحفظ واقعی یقینی بنانا مقصود ہے تو عدالت یہ تجویز رد کر دے۔

خواتین کو زیادہ خوف شوہروں سے ہی

عدالت کو اس حوالے سے معاونت فراہم کرنے والی سینیئر وکیل ریبیکا جان نے عدالتی بینچ کو بتایا ہے کہ مرد سمجھتے ہیں کہ شادی کے بعد بیوی سے سیکس ان کا بنیادی حق ہے، جو بیوی کی رضامندی کے بغیر بھی جائز ہے۔ تاہم کسی کو کسی کے ساتھ بھی زبردستی سیکس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

سن دو ہزار سولہ میں بھارتی حکمران سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کا مؤقف تھا کہ 'میریٹل ریپ‘ کو جرم قرار دینے سے شادی کا ادارہ عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا اور یہ خاوندوں کو ہراساں کرنے کا ایک آلہ بن جائے گا۔

تاہم عدالتی پٹیشن میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ دستیاب سرکاری اعددوشمار کے مطابق صرف سن دو ہزار پندرہ۔ سولہ میں ہی جنسی تشدد و زیادتی کی شکایات درج کرانے والی مجموعی خواتین میں سے 83 فیصد نے اپنے ہی خاوندوں کے خلاف درخواست جمع کرائی تھی۔

نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے اس ڈیٹا کے مطابق کسی خاتون کے کسی دوسرے مرد کے بجائے اپنے ہی خاوند کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا شکار بننے کے امکانات سترہ فیصد زیادہ ہیں۔

شادی کا بندھن بھی جمہوری ہونا چاہیے

کارُونا نندی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بھارت کے عدالتی نظام میں جھوٹے الزامات عائد کرنے والوں کے خلاف سخت قوانین ہیں اور یہ آسان نہیں کہ خاتون بغیر کسی ثبوت کے ہی اپنے شوہر کے خلاف ریپ کا الزام عائد کر دے۔

خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن کویتا کرشنن کے بقول شادی کے بعد میاں بیوی کے مابین جنسی عمل کا معاملہ پیچیدہ ہوتا ہے لیکن اس حوالے سے قانون سازی انتہائی اہم ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں انہوں نے مزید کہا کہ ایسے مفروضے بے بنیاد ہیں کہ اگر 'میریٹل ریپ‘ کو قابل سزا جرم بنا دیا گیا تو شادی کا ادارہ ہی تباہ ہو جائے گا۔

کرشنن نے کہا کہ ایسی قانون سازی کی بدولت دراصل شادی کا بندھن مزید مضبوط اور جمہوری بنیادوں پر استوار ہو سکے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسا کوئی بھی ادارہ فعال طریقے سے کام نہیں کر سکتا، جہاں صرف ایک فریق زبردستی کرے اور دوسرا بس محکوم ہی رہے۔ 

سیرت شابا، نئی دہلی (ع ب، ع ا)