میانمار میں طوفان کے باعث 22 ہزار سے زیادہ انسان ہلاک
6 مئی 2008میانمار میں سمندری طوفان کی تباہ کاریوں کے بعد انسانی ہلاکتوں کی تعداد میں ڈرامائی اضافے کاخدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ میانمار کے سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق دریائے اِراوَیدی کے قریب صرف ایک قصبے بوگالے میں ہی دَس ہزار سے کہیں زیادہ افراد موت کا شکار ہوئے ہیں۔ چار روز پہلے دو سو کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ رفتار کے ساتھ نرگس نامی سمندری طوفان جب اِس علاقے سے ہو کر گذرا تو بوگالے نامی قصبہ پانی کی تین تین میٹر سے بھی بلند لہروں کی زَد میں آیا۔
گو فوجی حکومت کی طرف سے رضامندی کے بعد اب آفت زدہ علاقوں کے لئے بین الاقوامی امداد پہنچنا شروع ہو گئی ہے لیکن میانمار کی فوجی حکومت نے امدادی سرگرمیاں شروع کرنے میں جو تاخیر کی، اُسے میانمار کے عوام کی جانب سے اب زیادہ سے زیادہ ہدفِ تنقید بنایا جا رہا ہے۔ ایک عینی شاہد کا کہنا تھا:
’’پہلے روز تو سڑکوں پر پولیس، فوج یا فائر بریگیڈ کا کوئی رکن نظر نہیں آیا۔ دارالحکومت رنگون کے شہری گرے ہوئے درختوں کوخالی اپنے ہاتھوں سے ہٹانے کی کوشش کرتے رہے۔ حکومت کی جانب سے ابتدا میں سرے سے کوئی مدد فراہم نہیں کی گئی۔‘‘
حکومت نے آفت زدہ علاقوں میں وباؤں کے خطرے سے خبردار کرتے ہوئے متاثرہ عوام کو پانی اُبال کر پینے کے لئے کہا ہے لیکن اقتصادی ڈھانچے کی مکمل تباہی اور آفت زدہ علاقوں میں انتہائی ابتر صورتِ حال کے باعث لوگ شاید ہی اِس تجویز پر عمل کر پائیں گے۔
جرمنی سمیت مختلف ممالک کے سرکاری ادارے اور غیر سرکاری تنظیمیں میانمار کے آفت زدہ عوام تک خوراک، ادویات اور دیگر اَشیائے ضرورت پہنچانے کے انتظامات کر رہی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی جانب سے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا:
’’اقوامِ متحدہ کا ادارہ اشد ضروری انسانی امداد فراہم کرنے کے لئے ہر ممکن کوششیں کرے گا۔ مواصلاتی رابطوں اورمعلومات کے فقدان کے باعث ابھی جانی اور مالی نقصان کا پورا اندازہ نہیں ہے لیکن مجھےانسانی ہلاکتوں کی مسلسل بڑھتی ہوئی تعداد کا سن کر سخت تشویش ہو رہی ہے۔‘‘
جہاں اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اپنے ابتدائی بیان میں ہلاکتوں کی تعداد دَس ہزار سے تجاوُز کر جانے کی بات کی تھی، وہاں تازہ ترین خبروں کے مطابق مرنے والوں کی تعداد بائیس ہزار سے تجاوُز کر گئی ہے۔
اِسی دوران میانمار کی اپوزیشن نے اتنے ہولناک طوفان کے بعد بھی ملک کے طوفان سے متاثر نہ ہونے والے علاقوں میں نئے آئین کے موضوع پر ریفرینڈم کروانے کے حکومتی اعلان کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اپوزیشن جماعت نیشنل لیگ فار ڈیماکریسی کے مطابق حکومت کو اپنی توجہ ریفرینڈم کی بجائے متاثرین کی مؤثر امداد پر مرکوز کرنی چاہیے۔