1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار: فوجی کارروائی کے سبب ہزاروں افراد گھرچھوڑنے پرمجبور

29 جون 2020

میانمار میں تصادم کی آماجگاہ راکھین ریاست میں حکومتی افواج اور مخالفین کے مابین جاری جنگ کے درمیان اقوام متحدہ نے ’شہریوں کو بچانے کے لیے فوری اقدامات‘ کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3eTqK
Opfer des Kinderklimas in Bangladesch
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin

اس تصادم کی وجہ سے اب تک درجنوں شہری ہلاک اور ہزاروں دیگر افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔

اقو ام متحدہ نے کہا کہ وہ مغربی میانمار کی راکھین اور چن ریاستوں میں جاری تصادم کی وجہ سے شہریوں پر پڑنے والے مضمرات سے کافی فکر مند ہے۔

اقوام متحدہ نے اتوار کے روز جاری ایک بیان میں کہا کہ میانمار کی مسلح افواج، ٹاٹماڈاو اور ایک باغی گروپ اراکان آرمی کے درمیان جنگ میں شدت آنے کی خبریں ملی ہیں۔ یہ انتہاپسند گروپ نسلی راکھائن بودھوں کے لیے زیادہ خودمختار ی کا مطالبہ کررہا ہے۔

خانہ جنگی

دونوں فریقین اس صورت حال اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے ایک دوسرے پر الزامات عائد کررہے ہیں۔

خیال رہے کہ حکومتی فورسز اور باغیوں کے درمیان گذشتہ برس جنوری میں شروع ہونے والی جھڑپوں نے خونریز خانہ جنگی کی صورت اختیار کرلی ہے۔ جس کی وجہ سے اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوچکے ہیں، انہیں اپنے گھر چھوڑ کر بھاگنے کے لیے مجبور ہونا پڑا ہے، جبکہ درجنوں افراد ہلاک اور سینکڑوں دیگر زخمی ہوئے ہیں۔

 دوسری طرف اقوام متحدہ نے دونوں فریقین پر ''شہریوں کو بچانے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے'' پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ دونوں فریق بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کا احترام کریں۔ اقو ام متحدہ نے کورونا کی عالمی وبا کے دوران جنگ بندی پر بھی زور دیا ہے۔

’کلیئرنس آپریشن‘

اقو ام متحدہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ فریقین کے درمیان جاری جنگ کی وجہ سے لوگ یا تو پھنس گئے ہیں یا پھر انہیں باہر نکلنے کا کوئی ذریعہ دستیاب نہیں ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ مکانات اور لوگوں کے املاک کو مبینہ طور پرنقصان پہنچایا گیا ہے یا تباہ کردیا گیا ہے۔

بعض دیگر افراد کا خیال ہے کہ چونکہ حکومت نے اس ہفتے ’کلیئرنس آپریشن‘ کی وارننگ دیتے ہوئے لوگوں کو گھروں سے چلے جانے کا حکم دیا تھا اس لیے ہزاروں کی تعداد میں لوگ اپنے اپنے گھروں کو چھوڑ کر بھاگنے کے لیے مجبور ہوگئے ہیں۔ دراصل راکھین ریاست کے ایک مقامی انتظامی سربراہ نے انتباہ کیا تھا کہ فوج درجنوں دیہاتوں کے باغی لیڈروں کے خلاف کارروائی کرنے والی ہے۔ اس کارروائی کی خبر سنتے ہی مقامی آبادی کسی محفوظ مقام کی تلاش میں گھر بار چھوڑ کر بھاگ رہی ہے۔

Bangladesch | Geplante Umverlegung geflüchteter Rohingya nach Bhasan Char
رواں برس اپریل میں سیکڑوں روہنگیا مسلمان راکھین سے ہجرت پر مجبور ہوئے تھے وہ کئی روز تک کشتی میں سوار ہو کر سمندر میں سرحدوں کے چکر لگاتے رہے۔تصویر: DW/A. Islam

خیال رہے کہ 2017 میں راکھین ریاست میں ایک روہنگیا شدت پسند گروپ کی طرف سے حملے کے جواب میں میانمار کی فوج نے جو کارروائی کی تھی اسے بھی ’کلیئرنس آپریشن‘ کا نام دیا تھا۔ اس کارروائی کے بعد میانمار پر شہریوں کے قتل عام کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ ایسی خبریں بھی آئی تھیں کہ میانمار میں فوج نے بڑے پیمانے پر شہریوں کا قتل اور عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی تھی۔

 برطانیہ، آسٹریلیا، امریکا اور کینیڈا کے سفارت خانوں نے بھی میانمار میں فوج کی جانب سے ''کلیرنس آپریشن'' کی خبروں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ اس سے انسانی ہمدردی کے لیے جاری کام متاثر ہوں گے۔

خیال رہے کہ 2017 میں میانمار فوج کی زیر قیادت کیے گئے آپریشن کے بعد تقریباً ساڑھے 7 لاکھ روہنگیا مسلمانوں نے میانمار سے بھاگ کر بنگلہ دیش میں سرحد پر واقع کیمپوں میں پناہ لی تھی۔ اقوام متحدہ نے اس معاملے پر اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ یہ فوجی کارروائی روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی غرض سے شروع کی گئی تھی۔

رواں برس اپریل میں بھی سیکڑوں روہنگیا مسلمان راکھین سے ہجرت پر مجبور ہوئے تھے لیکن انہیں بنگلہ دیش سمیت پڑوسی ممالک نے داخلے کی اجازت نہیں دی تھی اور وہ کئی روز تک کشتی میں سوار ہو کر سمندر میں سرحدوں کے چکر لگاتے رہے۔ بعدازاں بنگلہ دیش نے داخلے کی اجازت دے دی تاہم اس کا کہنا تھا کہ 'یہ بنگلہ دیش کی ذمہ داری نہیں ہے'۔

ج ا / ص ز (ایجنسیاں)

’’تعلیم سب کے لیے ہے تو روہنگیا کے لیے کیوں نہیں؟‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں