1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فوجی جنتا مخالف مظاہروں کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی کو سزا

14 مئی 2021

میانمار میں تین ماہ قبل فوجی جنتا کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے کسی صحافی کو مظاہروں کی رپورٹنگ کرنے پر قصور وار قرار دینے کا یہ پہلا فیصلہ ہے۔

https://p.dw.com/p/3tMsG
Myanmar | Protest wegen inhaftiertem Journalist
تصویر: Gemunu Amarasinghe/AP/picture alliance

صحافیوں کی ایک تنظیم کے مطابق میانمار کی ایک عدالت نے فوجی جنتا کے خلاف احتجاجی مظاہروں کی رپورٹنگ کرنے والے ایک صحافی کو جمعرات کے روز تین سال قید کی سزا سنائی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ملک میں صحافت کو عملاً غیر قانونی قرار دے دیا گیا ہے۔

ڈیموکریٹک وائس آف برما (ڈی وی بی) کے صحافی مِن نیو ایسے پہلے صحافی ہیں جنہیں یکم فروری کو فوجی بغاوت کے بعد قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ مِن نیو کو پیائے قصبے میں مظاہروں کی رپورٹنگ کے دوران تین مارچ میں گرفتار کیا گیا تھا۔

ڈی وی بی نے ایک بیان میں کہا کہ پولیس نے مِن نیو کو ”انتہائی بے رحمی کے ساتھ مار اپیٹا" اور ان کے رشتہ داروں کو ان سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔ ڈی وی بی نے فوجی حکام سے مِن نیو اور میانمار میں دیگر گرفتار یا سزا یافتہ صحافیوں کو فوراً رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

میانمار سے فرار ہو جانے کے بعد ملک میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے کی کوشش کرتے ہوئے ڈی وی بی کے تین صحافیوں کو اس ہفتے کے اوائل میں شمالی تھائی لینڈ سے گرفتار کیا گیا تھا۔

انسانی حقوق کے گروپوں اور کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس سمیت پریس کی آزادی کی علمبردار دیگر تنظیموں نے تھائی لینڈ سے اپیل کی ہے کہ وہ ان صحافیوں کو ملک بدر نہ کرے۔

پریس کی آزادی پر حملے

ڈی وی بی، جس کی لائسنس فوجی جنتا نے منسوخ کر دیا ہے، نے کہا کہ من نیو کو میانمار کی تعزیرات کی دفعہ 505 (اے)کے تحت قصوروار قرار دیا گیا ہے۔ جس کی رو سے ایسی اطلاعات کو پھیلانا جرم ہے جو سکیورٹی فورسز کو بغاوت پر آمادہ کر سکتی ہیں۔

میانمار میں متعدد دیگر خبر رساں اداروں اور تنظیموں کے لائسنس بھی منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ڈپٹی ریجنل ڈائریکٹر ایمرلین گل نے کہا کہ ملک میں صحافت کو عملاً جرم قرار دے دیا گیا ہے۔

گل نے ایک بیان میں کہا،”فوج کی خلاف ورزیوں سے متعلق کوئی خبر دینا اپنی زندگی اور آزادی کو خطرے میں ڈالنا ہے۔فوجی حکام بے رحم ہیں اور جو کوئی بھی ان کے جرائم کا پردہ فاش کرنے کی کوشش کرتا ہے اسے خاموش کرنے کے لیے کچل دیتے ہیں۔"

 میانمار میں فوج کسی بھی مزاحمت کو انتہائی بے رحمی سے کچل دے رہی ہے۔ایمرلین گل کے بقول،'' لوگوں پر گولیاں چلائی جا رہی ہے اور مظاہرین کو زخمی کیا جا رہار ہے۔‘‘ اے اے پی پی پریزنرز ایڈ آرگنائزیشن کے مطابق بغاوت کے بعد گزشتہ تین ماہ کے دوران اب تک کم از کم 785 افراد مارے جا چکے ہیں۔  تقریباً پانچ ہزار افراد جیلوں میں قید ہیں اور کم از کم سولہ سو افراد کے خلاف گرفتاری وارنٹ جاری کیے گئے ہیں۔

ج ا/  ع ا   (ڈی پی اے، روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں