1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین کی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے کابل میں نیٹ ورک قائم

انفومائگرینٹس
6 جون 2018

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں انسانی اسمگلنگ اور مہاجرین کی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے متعدد تنظیموں کے ایک نیٹ ورک نے کام کا آغاز کر دیا ہے۔ اس نیٹ ورک کو عالمی ادارہ مہاجرت کے زیر انتظام چلایا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/2z1uN
Afghanische Flüchtlinge aus dem Iran abgeschoben
تصویر: Tanha

یورپ میں مہاجرین کے حوالے سے خبریں فراہم کرنے والے ادارے انفو مائیگرنٹس کے مطابق اس نیٹ ورک کی کی مالی سرپرستی امریکی امدادی ایجنسی یو ایس ایڈ کر رہی ہے۔ یہ نیٹ ورک بنانے کا مقصد افغان حکومت کے سن 2017 میں انسانی اسمگلنگ کے خلاف بنائے ایک قانون پر عملدرآمد میں مدد کرنا ہے۔

افغانستان انسانی اسمگلنگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے جس سے لاکھوں انسانی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں۔ جنوری سن 2017 میں کابل حکومت نے انسانی اسمگلنگ کے خلاف ایک نیا قانون منظور کیا تھا۔

غیر سرکاری تنظیمیوں اور میڈیا کے اشتراک سے بننے والے اس پہلے قومی نیٹ ورک یا ’اے این سی ٹی آئی پی‘ کا مقصد لوگوں کو انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے آگاہ کرنا اور حکومت کو متعلقہ قانون کے نفاذ میں مدد فراہم کرنا ہے۔ یہ نیٹ ورک بارڈر سے ہونے والی انسانی اسمگلنگ کے بارے میں افغانستان کے پڑوسی ممالک سے بھی معلومات کا تبادلہ کرے گا۔

یو ایس ایڈ کے مشن ڈائریکٹر ہربرٹ اسمتھ کے مطابق،’’ انسانی اسمگلنگ کے خلاف جنگ میں اس سے متاثرہ افراد کی ضروریات اور حقوق پر توجہ مرکوز کرنا بہت ضروری ہے۔‘‘

انسانی اسمگلنگ کا بنیادی شکار ،افغان بچے

افغانستان میں اسمگلنگ کا زیادہ تر شکار بچے ہوتے ہیں۔ ان بچوں کا قالین سازی کے کارخانوں، اینٹ بنانے کے بھٹوں، اور گھروں میں ملازمت کے دوران استحصال کیا جاتا ہے۔

Afghanische Flüchtlinge aus dem Iran abgeschoben
تصویر: Tanha

علاوہ ازیں ان بچوں سے گداگری، جسم فروشی، افیون کی کاشت اور دیگر ممالک میں منشیات کی اسمگلنگ کا کام بھی کرایا جاتا ہے۔

سن 2017 میں امریکی محکمہ خارجہ کی ایک رپورٹ کے مطابق انسانی اسمگلروں کا نشانہ عموماﹰ پاکستان اور ایران سے واپس آنے والے اور داخلی طور پر اپنے گھر بار چھوڑنے والے افغان مہاجرین بنتے ہیں۔

سرحد پار انسانی اسمگلنگ

افغان خواتین و مرد اور بچے اکثر پاکستان، ایران، بھارت، یورپ اور شمالی امریکا میں ملازمتوں کے حصول کے لیے رقم ادا کرتے ہیں۔ بعض اوقات ان افراد کو مزدوری یا جسم فروشی کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ افغان خواتین اور لڑکیوں کو بھارت، پاکستان اور ایران میں جسم فروشی اور گھریلو غلامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

افغان لڑکے خاص طور پر خطرے میں

افغان لڑکے، بالخصوص وہ جو اکیلے سفر کر رہے ہوتے ہیں، استحصال کا شکار زیادہ ہوتے ہیں۔ بعض مرتبہ افغان مہاجر لڑکے یونان میں جسم فروشی پر بھی مجبور ہوتے ہیں۔