موٹاپے کو بچپن میں روکنے کے لیے ’مٹھاس‘ پر قابو ضروری
1 اگست 2011وہ کہتی ہیں کہ بہت زیادہ علم نہ ہونے کے باوجود بھی اگر والدین محض اس بات پر دھیان رکھیں کہ ان کا بچہ کھانے پینے میں میٹھی چیزوں کا استعمال محتاط حد تک کرے تو اس کا وزن قابو میں رہنے کے امکانات خاصے روشن ہیں۔
مغربی ممالک میں بچوں کا موٹاپا ایک سنجیدہ سماجی مسئلے کا روپ دھار رہا ہے۔ جرمنی کے رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ میں بچوں سے متعلق ایک سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ یورپ کی اس سب سے بڑی اقتصادی طاقت کے حامل ملک میں 3 تا 17 برس کی عمر والے 15 فیصد بچوں کا وزن معمول سے بہت زیادہ ہے۔
عمومی طور پر زیادہ چربی والی اور پہلے سے تیار شدہ بازاری خوراک کا کثرت سے استعمال اور ورزش کی کمی کو موٹاپے کی اہم وجوہات میں شمار کیا جاتا ہے۔ Dagmar von Cramm کا البتہ کہنا ہے کہ موٹے بچوں کی ایک بڑی تعداد کو یہ مشکل اس لیے درپیش ہے کہ وہ بے دھیانی میں بہت زیادہ میٹھے مشروبات پیتے رہتے ہیں اور کھانے سے قبل یا بعد کے اوقات میں اکثر بہت زیادہ میٹھی چیزیں کھا جاتے ہیں۔
وہ تین بچوں کی ماں کی حیثیت میں اپنی نجی زندگی کا حوالہ دیتے ہوئے کہتی ہیں، ’’ آپ کو چاہیے کہ اپنے بچے کو کم عمری ہی میں سکھائیں کہ کیسے مناسب خوراک کھائی جائے۔‘‘ وہ اس ضمن میں چاکلیٹ، ٹافیوں اور میٹھے مشروبات کی سستے داموں دستیابی کو بھی مسئلے کا حصہ سمجھتی ہیں۔
جرمنی میں بچوں کی تربیت سے متعلق وفاقی ادارے سے وابستہ آندریاس اینگل کا البتہ کہنا ہے کہ کسی بھی صورت میں ان میٹھی اشیاء کو بچے کی بنیادی خوراک کا عنصر نہیں بننے دینا چاہیے۔ اینگل چاہتی ہیں کہ والدین ان اشیاء کے استعمال میں بھی محتاط رہیں، جن کے بارے میں عمومی طور پر یہ علم نہیں رہتا کہ اس میں کس قدر مٹھاس شامل کی گئی ہے، جیسا کہ کیچپ، ذائقے والا دہی وغیرہ۔ ان کا مشورہ ہے کہ بسکٹ، کیک اور چاکلیٹ کو بھی روز مرہ کھانے کی اشیاء نہ سمجھا جائے اور انہیں خصوصی تقریبات اور مواقع سے جوڑ کر محض کبھی کبھار کھایا جائے تو کم عمری ہی میں موٹاپے کا راستہ روکا جاسکتا ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: شامل شمس