1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہجرت، آج کی دنیا کی ایک حقیقت

25 ستمبر 2022

جنوبی ایشیا میں کئی ممالک و خطے موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثرہ ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے میں ہمالیہ کے خطے سے نقل مکانی کا رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے اور کئی خاندان بھارت میں بنگلور کی جانب ہجرت کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4HBi9
Bildergalerie | Indien
تصویر: M. Guyt/blickwinkel/AGAMI/picture alliance

آٹھ سالہ جریفہ اسلام کو بس یہ یاد ہے کہ ایک دن دریا بہت بپھرا ہوا تھا اور ان کا گھر اور کھیت بہا کر لے گیا تھا۔ یہ جولائی سن 2019 کا واقعہ ہے جب دریائے برہم پترا اس علاقے میں سب کچھ بہا کر لے گیا تھا۔ جریفہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ بھارتی ریاست آسام کے ضلع درانگ میں رہتی تھی۔ ان کا گاؤں ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے کی آغوش میں دریا کنارے آباد تھا۔ شمال مشرقی بھارت کے دیگر بہت سے حصوں کی طرح یہ علاقہ بھی اکثر شدید بارشوں اور سیلاب کی زد میں رہتا تھا۔

دہلی میں پہلی بار درجہ حرارت پچاس سینٹی گریڈ کے قریب ریکارڈ کیا گیا

موسمیاتی تبدیلیاں: کیا ہیٹ ویوز بھارت میں معمول بن جائیں گی؟

کوئی بچہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے بچ نہیں سکتا، یونیسیف

جریفہ کے والد زید الاسلام اور والدہ پنجیرہ خاتون ویسے تو قدرتی آفات کے خطرے سے آگاہ تھے مگر انہیں محسوس ہوا کہ کچھ بدل گیا ہے۔ بارشیں کافی بے ترتیب آنے لگی تھیں، سیلاب زیادہ کثرت سے اور غیر متوقع طور پر آنا شروع ہو گئے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق ریاست آسام میں 2.6 ملین لوگ سیلاب سے متاثر ہوئے اور یہ خاندان بھی ان میں سے ایک تھا اور جنہوں نے 80 لاکھ سے زیادہ آبادی والے شہر بنگلور جانے کا فیصلہ کیا۔ اس شہر کو بھارت کی سیلیکون ویلی کے نام سے جانا جاتا ہے۔

حالات نے جریفہ اور اس کے بارہ سالہ بھائی راجو کو بالآخر تقریباً 2,000 میل دور بنگلور میں ایک اسکول تک پہنچا دیا۔ بھارت کے اس شہر میں لوگ کنڑ بولتے ہیں، وہ زبان جو بچوں کی مقامی بنگلہ زبان سے بہت مختلف ہے۔ جریفہ اور راجو کے لیے ابتدائی دن مشکل تھے۔ ریاست کے زیر انتظام اسکولوں میں کنڑ زبان میں پڑھایا جاتا تھا۔ ابتدائی دنوں میں تو راجو ایک لفظ بھی نہیں سمجھ سکتا تھا۔ لیکن اس نے فیصلہ کیا کہ کلاس میں رہنا بہتر ہے۔ آسام میں اکثر اوقات پانی میں ڈوبی سڑکوں نے اسے کئی کئی ماہ تک تعلیم سے دور رکھا۔ وہ کہتا ہے، ''شروع میں مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ پھر اساتذہ نے مجھے آہستہ آہستہ چیزیں سمجھائیں اور میں نے سیکھنا شروع کر دیا۔‘‘

بھارت میں ’کسانوں کا قبرستان‘

اس خاندان نے نشیبی علاقے ضلع دارنگ سے نقل مکانی کی۔ شدید بارشیں، سیلاب اور بڑھتا ہوا درجہ حرارت اس ہجرت کی وجہ بنا۔ موسمیاتی تبدیلیوں نے اس حصے میں مون سون کی بارشوں کو بے ترتیب بنا دیا ہے۔

بھارتی انسٹی ٹیوٹ آف پبلک پالیسی کے ریسرچ ڈائریکٹر انجل پرکاش کا کہنا ہے کہ سیلاب اور خشک سالی اکثر ایک ساتھ آتے ہیں۔ ان کے بقول ہمالیہ کے خطے میں پانی کے قدرتی نظام، جن پر لوگوں کا ہزاروں سالوں سے انحصار تھا، اب ٹوٹ چکے ہیں۔ پچھلی دہائی میں موسمیاتی وجوہات کی بنا پر نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد بڑھی ہے۔ پھیلتے ہوئے سمندروں، خشک سالی اور ناقابل برداشت گرمی کی لہروں کی وجہ سے اگلے 30 سالوں میں دنیا بھر میں 143 ملین افراد ممکنہ طور پر ہجرت پر مجبور ہو سکتے ہیں۔

تخمینہ ہے کہ بھارت میں تقریباً 139 ملین مہاجرین ہیں، گو یہ واضح نہیں کہ ان میں سے کتنے موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے  نقل مکانی کر کے کہیں اور آباد ہیں۔ سن 2050ء تک بنگلورو جیسے شہر ترجیحی منزل بن چکے ہوں گے۔

فی الحال راجو اپنے نئے اسکول میں اچھا پڑھنے اور آگے نکلنے کا خواب دیکھتا ہے۔ اساتذہ ہر دو ماہ بعد طالب علموں کا امتحان لیتے ہیں تاکہ ان کی مدد کی جا سکے۔ جریفہ اور راجو اکیلے ایسے بچے نہیں، جنہیں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے  نقل مکانی کر کے کہیں اور آباد ہونا پڑا بلکہ جنوبی ایشیا میں کئی مقامات پر ایسی ہی کہانیاں عام ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں سے فصلوں کو کیسے بچایا جائے؟

ع س/ا ب ا (اے پی)