1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کاراتیپ میں پناہ گزینوں کے لیے نئی خیمہ بستی قائم کی گئی ہے۔

17 ستمبر 2020

یونانی پولیس جزیرے لیسبوس کے مہاجر کیمپ میں آگ لگنے کے سبب بے گھر ہونے والے ہزاروں مہاجرین کو ایک نئے رہائشی مرکز میں منتقل کرنے کا آپریشن جاری رکھے ہوئے ہے۔

https://p.dw.com/p/3ibzP
Griechenland Lesbos | Luftaufnahme neues Migranten-Lager Kara Tepe
تصویر: Panagiotis Balaskas/Xinhua/imago images

جزیرے لیسبوس پر قائم اور ہزاروں مہاجرین کو سر چھپانے کی جگہ فراہم کرنے والا موریا مہاجر کیمپ آتشزدگی کے واقعے میں مکمل طور پر جل گیا تھا۔

جمعرات سترہ ستمبر کو پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ بے سر و سامانی کے شکار ہزاروں مہاجرین کو منتقل کرنے کے لیے جاری آپریشن میں 70 خواتین پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ مہاجرین کی منتقلی کے اس عمل میں شریک پولیس اہلکار کوشش کر رہے ہیں کہ پناہ کے متلاشی مگر بے گھر ہو جانے والے مہاجرین کو کسی طرح لیسبوس جزیرے کے علاقے' کاراتیپ‘ میں خیموں سے بنائے گئے نئے مہاجر کیمپ میں منتقلی  پر آمادہ کر سکیں۔ یہ نیا کیمپ لیسبوس کے صدر مقام 'میٹیلینی‘ سے تقریباﹰ ڈھائی کلومیٹر کے فاصلے پر 'کاراتیپ‘ نامی علاقے میں قائم کیا گیا ہے۔

Griechenland Lesbos | Flüchtlingssituation nach dem Brand in Moria
لاک ڈاؤن سے تنگ آکر احتجاج کرنے والا ایک مہاجر۔تصویر: DW/M. Karakoulaki

موریا کیمپ کے مہاجرین کے لیے نئے خیمے

کاراتیپ میں پناہ گزینوں کے لیے قائم کی گئی نئی خیمہ بستی کی دیکھ بھال کی ذمہ داری میٹیلینی کی بلدیاتی انتظامیہ اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر نے سنبھال لی ہے۔ انہیں متعدد سرگرم این جی اوز کا بھرپور تعاون بھی حاصل ہے۔ دریں اثناء جل جانے والے موریا مہاجر کیمپ کے مہاجرین کو کاراتیپ کے خیموں میں منتقل کرنے کا کام جاری ہے اور اب تک اس آپریشن کے دوران کسی تشدد کی اطلاع نہیں ہے۔ یونانی حکام کے مطابق گزشتہ ہفتے موریا مہاجر کیمپ میں جان بوجھ کر آگ لگائی گئی تھی اور یہ کارروائی کیمپ میں مقیم چند مہاجرین پر مشتمل ایک چھوٹے سے گروپ نے لاک ڈاؤن کی پابندیوں سے مشتعل ہو کر کی تھی۔

آتشزدگی کے اس واقعے کے نتیجے میں 12 سو مہاجرین ہنگامی صورتحال سے دوچار ہو گئے تھے۔ بے گھر ہو جانے والے یہ افراد تب سے موریا جزیرے کے دارالحکومت میٹیلینی تک جانے والی سڑک پر پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں اور سڑک پر ہی شب بسری کرتے ہیں۔ ان کے لیے چادروں، کمبلوں اور گتوں وغیرہ سے خیمے کھڑے کیے گئے ہیں۔ ایک کھیت میں قائم کیا گیا یہ عارضی کیمپ بڑے بڑے خیموں پر مشتمل ہے۔

Griechenland Lesbos | Flüchtlingssituation nach dem Brand in Moria
موریا کیمپ میں آتشزدگی کے بعد مہاجر بچے خدا کے آگے مدد کے لیے ہاتھ پھیلا رہےہیں۔تصویر: DW/M. Karakoulaki

یو این ایچ سی آر کے مطابق بدھ کی رات تک اس میں 8 ہزار افراد تک کے قیام کی گنجائش پیدا ہو چکی تھی مگر تب تک محض گیارہ سو کے قریب ایسے پناہ گزین ہی وہاں گئے تھے، جن کا شمار موریا کیمپ کے کمزور ترین اور نادارترین لوگوں میں ہوتا تھا۔ نئے آنے والوں کے پہلے کورونا ٹیسٹ کیے جاتے ہیں، جس کے بعد ان کی رجسٹریشن کی جاتی ہے اور پھر انہیں ایک خیمہ دے دیا جاتا ہے۔ مقامی پولیس کے ایک اہلکار نے بتایا، ''یہ آپریشن عوامی صحت کے مکمل تحفظ کے لیے انسان دوست اقدامات پر مشتمل کارروائی ہے۔‘‘

موریا کیمپ میں آتشزدگی کا ذمہ دار کون؟

گزشتہ ہفتے موریا کیمپ میں آگ لگانے کی مجرمانہ کارروائی میں ملوث ہونے کے شبے میں دو نابالغوں سمیت چھ افغان باشندوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ موریا کیمپ میں لاک ڈاؤن کے دوران کیے گئے ٹیسٹون سے پتا چلا تھا کہ وہاں 35 افراد اس وائرس کا شکار تھے۔ اس کے بعد متاثرین کو دیگر لوگوں سے الگ تھلگ رہنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے، جس پر مشتعل ہو کر چند مہاجرین نے کیمپ میں آگ لگا دی تھی۔

Griechenland Lesbos | Flüchtlingssituation nach dem Brand in Moria
موریا کیمپ سے بے گھر ہونیوالوں کو عارضی خیمہ بستی منتقل کیا جا رہا ہے۔ تصویر: DW/M. Karakoulaki

موریا مہاجر کیمپ میں بمشکل 27 سو مہاجرین کو رکھنے کی گنجائش تھی  جبکہ آتش زدگی کے وقت اس کیمپ کے اندر اور اس کے ارد گرد تقریباﹰ ساڑھے بارہ ہزار افراد مقیم تھے۔ موریا کیمپ کی نا گفتہ بہ صورتحال اور وہاں لگنے والی آگ کے بعد کے حالات کو بہت سے ناقدین نے ''مہاجرین اور مہاجرت کے حوالے سے یورپی یونین کی ناکام پالیسی کی علامت قرار دیا ہے۔‘‘

ک م / م م (خبر رساں ادارے)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں