1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

منفرد اعزاز کی حامل پاکستانی خاتون اینڈوکرائنالوجسٹ

27 نومبر 2022

ڈاکٹر تسنیم احسن پاکستانی اینڈوکرائنالوجسٹ ہیں۔ امریکی اینڈوکرائن سوسائٹی نے ان کی قابل قدر خدمات پرانہیں الریٹ ایوارڈ دیا ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والی یہ ڈاکٹر پاکستان میں اینڈوکرائنالوجی شعبے کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔

https://p.dw.com/p/4K5OV
Tasneem Ahsan | pakistanische Endokrinologe
تصویر: Medicell Institute Karachi

اینڈوکرائنالوجی میں 30 برس سے زائد عرصے پر محیط ان کی خدمات کے اعتراف میں امریکہ کی اینڈو کرائن سوسائٹی نے ڈاکٹر تسنیم احسن اکتوبر 2022 ء میں الریٹ ایوارڈ سے نوازا ہے۔ ڈاکٹر تسنیم پہلی پاکستانی ہیں جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا ہے۔ یہ ایوارڈ ہر برس دنیا بھر سےان افراد کو دیا جاتا ہے، جنہوں نے ہارمون، ہیلتھ ریسرچ، تعلیم، کلینیکل پریکٹس یا مینجمنٹ کے شعبوں میں ایسے ممالک میں خدمات سر انجام دی ہوں، جہاں جغرافیائی حالات نا موافق ہوں اور طب کے شعبے میں وسائل کا فقدان ہو۔

 ڈاکٹر تسنیم احسن کون ہیں؟

ڈاکٹر تسنیم احسن پاکستان میں اینڈوکرائنالوجی کے بانیوں میں شمار کی جاتی ہیں۔ سن 1978 میں ڈاؤ میڈیکل کالج سے گریجویشن کے بعد انہیں برطانیہ میں اینڈوکرائنالوجی میں اعلی تعلیم کے لیے تین رائل میڈیکل کالجز کی فیلو شپ ملیں۔ ڈاکٹر تسنیم پاکستان واپس آکر ڈاؤ میڈیکل کالج میں پانچ برس تک اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیتی رہیں۔ اس کے بعد جناح پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ جوائن کیا اور وہاں پرائیویٹ سیکٹر میں پاکستان کے پہلے اینڈوکرائنالوجی ڈیپارٹمنٹ کی بنیاد رکھی۔ سن 2015 میں ڈاکٹر تسنیم جناح پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ سے بحیثیت ایگزیکٹو ڈائریکٹر ریٹائر ہوئیں تو انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے انہیں’’ پروفیسر امیریٹس‘‘کا خطاب دیا گیا۔ واضح رہے کہ تعلیم کے شعبے میں یہ خطاب پانے والے اساتذہ کی خدمات سے ساری زندگی فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد پروفیسر تسنیم نے میڈی سیل انسٹی ٹیوٹ آف ڈائبیٹک اینڈوکرائنالوجی اینڈ میٹابولزم کی بنیاد رکھی جو اسی فیلڈ سے متعلق تحقیق کی سہولیات اور تربیت فراہم کرتا ہے۔ ڈاکٹر تسنیم اب تک 100 سے زائد انٹرنیز اور اینڈوکرائنولوجسٹ کی تربیت کر چکی ہیں، جو پاکستان بھر میں کسنلٹنٹ اور اساتذہ کے طور پر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

Tasneem Ahsan | pakistanische Endokrinologe
ڈاکٹر تسنیم احسن پاکستان میں اینڈوکرائنالوجی کے بانیوں میں شمار کی جاتی ہیںتصویر: Medicell Institute Karachi

 ڈاکٹر تسنیم کوالریٹ ایوارڈ کیوں دیا گیا؟

امریکہ کی اینڈوکرائن سوسائٹی ہر برس دنیا بھر سے ایسے اینڈوکرائنالوجسٹ کو الریٹ ایوارڈ سے نوازتی ہے، جنہوں نے انتہائی مشکل حالات اور کم وسائل کے ساتھ اس فیلڈ میں غیر معمولی خدمات سر انجام دی ہوں۔ ڈاکٹر تسنیم نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ دو دہائی قبل انہوں نے جناح پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ میں انتہائی کم وسائل کے ساتھ  اینڈوکرائنالوجی او پی ڈی کی بنیاد رکھی تھی،''ابتدا میں کام کرنے کے لیے صرف ایک کمرہ دستیاب تھا اور طبی سہولیات بھی نا کافی تھیں۔ نو ے کے اوائل میں اینڈوکرائنالوجی کے ماہرین تو تھے مگر سرکاری ہسپتالوں میں ان کافقدان تھا۔ فنڈز کے حصول سے زیادہ اپنا فوکس کارکردگی پر رکھنے کا فائدہ یہ ہوا کہ آہستہ آہستہ اس شعبے کی اہمیت سب کو سمجھ آنے لگی اور انہیں جناح پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ میں اینڈوکرائنالوجی ڈیپارٹمنٹ قائم کرنے کی اجازت مل گئی۔‘‘

 ڈاکٹر تسنیم کے مطابق ایسا نہیں ہے کہ ابتدائی دور میں انہیں مالی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ان کے بقول ایک وقت ایسا بھی آیا، جب انہیں دوستوں اور خاندان والوں سے چندہ اکٹھا کرنا پڑا لیکن ان کے لیے سب سےاہم امر یہ تھا کہ لوگوں کا اعتماد برقرار رہے، جس کے لیے ظاہر ہے انہیں دن رات ایک کر کے بہترین کارکردگی دکھانی تھی۔  تقریبا دو دہائیوں کی محنت کا ثمر انہیں 2010ء میں ملا جب اینڈو کرائنا لوجی ڈیپارٹمنٹ کی کارکردگی کو باقاعدہ پرکھ کر اسے سپیشلسٹ شعبے کے درجے پر اپ گریڈ کر دیا گیا۔

 اینڈوکرائنالوجی کا شعبہ اہمیت کا حامل کیوں ہے؟

 پروفیسر ڈاکٹر تسنیم نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اینڈوکرائنالوجی کا شعبہ آج کل بہت زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اس میں اینڈو کرائن گلینڈ اور ہارمونز کے کنٹرول سے متعلق دائمی امراض کا علاج  کیا جاتا ہے، جن کے لیے احتیاط ہی واحد حل ہے۔ ڈاکٹر تسنیم کے مطابق انسانی جسم میں تقریبا 50 ہارمون ہیں، جو ہماری روز مرہ زندگی کی کارکردگی پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں، ’’یہ ہمارے جسم کا درجۂ حرارت، موڈ )رجحانات)، نیند، میٹا بولزم، حرکیات، نشونما اور دماغی صحت کو کنٹرول کرتے ہیں۔‘‘

 وہ مزید بتاتی ہیں کہ دائمی امراض جیسے ذیابیطس جب ا یک بار ہوجائے تو مریض کو اس کے ساتھ جینا سیکھنا ہوتا ہے، جس کے لیے سب سے اہم اس کی روز مرہ زندگی سے متعلق ڈیٹا ہے۔ یعنی مریض اور معالج دونوں مرض کی نوعیت اور اتار چڑھاؤ، یا جسم کے کسی اور حصے کے اس سے متاثر ہونے سے متعلق مکمل معلومات رکھتے ہوں، جو سالہاسال پر محیط ہوتی ہیں۔

Tasneem Ahsan | pakistanische Endokrinologe
ڈاکٹر تسنیم احسن اکتوبر 2022 ء میں الریٹ ایوارڈ سے نوازا ہےتصویر: Medicell Institute Karachi

پاکستانی خواتین کو کسی نئی فیلڈ میں کن مسائل کا سامنا ہوتا ہے؟

پروفیسر ڈاکٹر تسنیم نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان میں کسی نئے شعبے میں آگے آنے والی خواتین کو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ''یہاں عمومی سوچ یہ ہے کہ کچھ شعبے خواتین کے لیے نہیں ہیں اور ان پر سالہا سال سے مردوں کی اجارہ داری ہے۔‘‘ وہ بتاتی ہیں کہ میڈیکل شعبہ جوائن کرتے وقت ان کی سوچ تھی کہ اپنے وطن اور لوگوں کے لیے کچھ کر کے دکھانا ہے۔ انہوں نے جب جناح پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ میں اینڈوکرائنالوجی او پی ڈی کی بنیاد رکھی تو پرائیویٹ شعبے سے وہ واحد خاتون اینڈوکرائنا لوجسٹ اور پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی کی پہلی خاتون ممبر تھیں۔ ڈاکٹر تسنیم کے مطابق ایک نوآموز اور غیر متعارف فیلڈ میں انتہائی کم وسائل کے ساتھ جگہ بنانا ایک بہت بڑا چیلنج تھا، جس میں ان کے شوہر اور فیملی کی مکمل سپورٹ ہر دور میں ان کے ساتھ رہی جس سے انہیں ہمیشہ بہت حوصلہ ملا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں صنفی امتیاز اور سماجی رجحانات بہت سی باصلاحیت خواتین کو نئی فیلڈز میں آگے آنے سے روکتے ہیں لیکن اگر آپ اپنی صلاحیتوں سے واقف ہیں اور مستقبل کے لیے ایک واضح لائحہ عمل رکھتی ہیں تو راہ کی مشکلات کوئی معنی نہیں رکھتیں۔