1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ممکنہ روسی جارحیت، یوکرائن کس حد تک تیار ہے؟

28 جنوری 2022

بیشتر یوکرائنی عوام محسوس کر رہے ہیں کہ روس کے ساتھ موجودہ کشیدگی فوج کشی کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔ روس اور یوکرائن کے مابین تناؤ میں کمی لانے کے لیے سفارتی کوششوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

https://p.dw.com/p/46DoT
Russland Yelnya | Satellitenbild | Russisches Militär
تصویر: Maxar Technologies/AFP

ایک طرف مغربی اقوام روس اور یوکرائن کے درمیان پیدا تناؤ میں کمی لانے کی کوششوں میں ہیں۔ جبکہ دوسری جانب یوکرائنی حکومت نے اپنی عوام پر یہ بھی واضح کیا ہے کہ  مستقبل قریب میں بظاہر روس کی فوج کشی کا امکان دکھائی نہیں دے رہا۔ کییف حکومت نے موجودہ صورت حال کو خطرناک ضرور قرار دیا ہے۔

روس اور یوکرائن جنگ بندی برقرار رکھنے پر متفق

سروے رپورٹ

یوکرائنی دارالحکومت کییف میں قائم انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ برائے سوشیالوجی (KIIS) نے حال ہی میں ایک سروے رپورٹ مرتب کی ہے۔ اس کے مطابق اڑتالیس فیصد سے زائد افراد کو یقین ہے کہ روس فوج کشی کر سکتا ہے۔ انتالیس فیصد سے زائد افراد کا کہنا ہے کہ روسی جارحیت کا امکان موجود نہیں۔ ان کے علاوہ قریب تیرہ فیصد اس صورت حال کے بارے کوئی واضح رائے نہیں رکھتے۔

Ukraine-Russland-Konflikt | Die "Territorialen Verteidigungskräfte der Ukraine"
یوکرائنی دارالحکومت کییف میں رضاکاروں کو عسکری تربیت دی جا رہی ہےتصویر: Efrem Lukatsky/AP Photo/picture alliance

اسی ادارے نے گزشتہ برس وسطِ دسمبر میں بھی ایسا ہی ایک سروے مکمل کیا تھا۔ کم و بیش تب بھی عوامی رائے ایسی ہی تھی لیکن اُس وقت روسی فوج کشی کے عدم امکان کا اظہار کرنے والوں کی تعداد اکتالیس فیصد سے زیادہ تھی جو اب کم ہو گئی ہے۔

صدر پوٹن پر بھی پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں، جو بائیڈن

کییف انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ برائے سوشیالوجی کے ڈائریکٹر جنرل وولودومیر پینیئوٹو نے اپنی سروے رپورٹ کے تناظر میں واضح کیا کہ یوکرائنی عوام کی رائے کا انحصار بعض دستیاب معلومات پر ہے اور اس باعث ان کی آراء میں بڑی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی ہے۔

Infografik Karte Stationierung russischer Truppenn nahe Ukraine EN
روس، بیلاروس اور یوکرائن کا نقشہ

وولودومیر پینیئوٹو ںے مزید کہا کہ ان کے ملک میں سوشل نیٹ ورکنگ پچھلے دو سالوں میں بہت بڑھ چکی ہے اور ان کا کسی بارے میں رائے قائم کرنے کی بنیاد انٹرنیٹ اور سوشل نیٹ ورکنگ ہے۔

روسی اقدامات کیا صرف بلیک میل ہیں؟

یوکرائن کے اہم ادارے رازمکوف سینٹر کے نائب سربراہ میخائلو میسچینکو نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ روس کی جانب سے حملہ نہ کرنے کے حوالے سے جو خیالات ہیں، ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ یوکرائن پر حملے کی صورت میں روس کو عالمی برادری کے ردِ عمل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کئی یوکرائنی افراد کا خیال ہے کہ موجودہ صورت حال اصل میں کریملن کا بلیک میلنگ کا ایک رویہ ہے۔

امریکا نے یوکرائن میں سفارتی عملے کے اہل خانہ کو ملک چھوڑ دینے کا حکم دیا

ایسی بھی خبریں سامنے آئی ہیں کہ مغربی ممالک نے اپنے سفارتی عملے کے خاندانوں کے انخلا کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے۔ ایسی رپورٹوں سے بھی یوکرائنی عوام میں بے چینی و پریشانی پیدا ہوئی ہے۔ روسی جارحیت بارے رائے پیدا کرنے کی یہ ایک بڑی وجہ بھی ہے۔ اس مناسبت سے یوکرائنی افراد میں روسی جارحیت کے امکان کو تقویت حاصل ہوئی ہے۔ اس تناظر میں ایک حلقے نے اسے مغربی اقوام کا حفاظتی اقدام قرار دیا ہے۔

داریا نائنکو، کییف (ع ح /ع ا)