مغربی ممالک سے نکالے گئے مہاجرین کا بسیرا بلقان ریاستوں میں
16 فروری 201716 سالہ افغان مہاجر اشکان بارک زندگی کی دوڑ دھوپ سے تنگ آ چکا ہے۔ پچھلے سال وہ طالبان کی کارروائیوں کے تناظر میں فرار ہوا، انسانوں کے اسمگلروں کو پیسے دے کر بحیرہء روم عبور کر کے یورپ پہنچ گیا۔ مگر کروشیا پہنچا تو نو ماہ تک ایک مہاجر بستی میں رہتے ہوئے اشکان نے جرمنی پہنچنے کا خواب دیکھنا ہی ختم کر دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اب وہ کروشیا ہی میں زندگی بسر کرنا چاہتا ہے۔
’’مجھے صرف امن چاہیے، تاکہ میں طالبان سے دور اپنی زندگی جی سکوں۔ میرے لیے یہ اہم نہیں کہ میں کہاں رہتا ہوں۔ میں کروشیا ہی میں رہنا چاہتا ہوں۔ میں سفر سے تنگ آ چکا ہوں۔‘‘
اشکان کا مزید کہنا ہے، ’’میں باہر جا سکتا ہوں اور بلاخوف چہل قدمی کر سکتا ہوں۔ یہاں کسی بندوق کسی جنگ کا خطرہ نہیں۔‘‘
مغربی بلقان ریاست کروشیا میں تقریبا ساڑھے نو سو مہاجرین موجود ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ان میں زیادہ تر تعداد افغان، پاکستانی اور شامی باشندوں کی ہے، جو جنگوں اور غربت سے تنگ آ کر ہجرت پر مجبور ہوئے۔
گو کہ یورپی یونین کی دیگر ریاستوں کے مقابلے میں کروشیا میں بہت کم مہاجرین موجود ہیں، تاہم کروشیا کی وزارت داخلہ کے مطابق مغربی ممالک سے بہت سے تارکین وطن کی کروشیا آمد متوقع ہے، کیوں کہ بہت سے افراد نے مغربی یورپی ممالک پہنچنے سے قبل کروشیا میں سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرائی تھی۔
یہ بات اہم ہے کہ سن 2015ء میں مہاجرین کے بحران کے عروج کے دور میں کروشیا سے قریب ساڑھے چھ لاکھ افراد گزرے تھے اور کروشیا سمیت بلقان ریاستوں ہی کے راستے جرمنی اور دیگر مغربی اور شمالی یورپی ممالک پہنچے تھے۔