1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ملوث اہلکاروں کے خلاف مقدمہ چلنا چاہیے: اقرار الحسن

عاطف توقیر
16 فروری 2022

پاکستانی صحافی اور ٹی وی پروگرام میزبان اقرار الحسن کا کہنا ہے کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنانے والے اہلکاروں کی معطلی کافی نہیں بلکہ ان کے خلاف باقاعدہ مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/477FY
Pakistan Journalist Iqrar ul Hassan
تصویر: privat

پاکستانی کے جنوبی شہر اور تجارتی مرکز کراچی میں انٹیلیجنس بیورو کے اہلکاروں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننے والے معروف ٹی وی اینکر اور صحافی اقرار الحسن نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ ان پر تشدد کرنے والے اہلکاروں کی محض معطلی کافی نہیں ہو گی بلکہ انہیں گرفتار کر کے ان کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔

اس سے قبل پاکستانی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بھی اپنے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ اقرار الحسن اور ان کی ٹیم کو ایک وفاقی ادارے کے دفتر میں تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے واقعے میں ملوث اہلکاروں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔

اس واقعے پر صحافیوں کے تحفظ کی عالمی تنظیم رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز نے اپنے ایک ٹویٹر پیغام میں کہا کہ یہ عالمی تنظیم اے آر وائی نیوز چینل سے وابستہ صحافی اقرار الحسن کو برہنہ کرنے، ان کی آنکھوں پر پٹی باندھنے اور ان پر تشدد کرنے کی مذمت کرتی ہے۔

ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت میں اقرار الحسن نے بتایا کہ کراچی میں ایک بنگالی خاندان کی جانب سے ان کی ٹیم سے رابطہ کیا گیا تھا کہ انٹیلیجنس بیورو کا ایک اہلکار اس خاندان کی شہریت سے متعلق معاملے کی تصدیقی جانچ کے عوض ساٹھ ہزار روپے رشوت کا مطالبہ کر رہا ہے، ''ہماری ٹیم کے ایک رکن نے اس خاندان کے ایک فرد کے روپ میں اس اہلکار سے ملاقات کی۔ اس اہلکار کو تین مختلف مراحل میں یہ رقم دی گئی، جب کہ اس دوران اس کی ویڈیو فوٹیج بنائی گئی۔ ہمارے پاس ریکارڈنگ موجود ہے، ایک بار بیس ہزار روپے پھر چوبیس ہزار روپے اور اس سلسلے میں آخری قسط بارہ ہزار روپے کی تھی، جو یہ اہلکار کراچی میں واقعے آئی بی کے دفتر کے مرکزی دروازے کے باہر وصول کر رہا تھا۔ یہ ریکارڈنگز بھی ہمارے پاس موجود ہیں۔‘‘

اقرار الحسن کے مطابق اس ادارے میں کسی اعلیٰ افسر کو یہ ریکارڈنگز دکھانے اور اس اہلکار کے خلاف کارروائی کے مطالبے کے لیے جب وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ آئی بی کی عمارت میں پہنچے تو اس ادارے کے ڈائریکٹر کے کہنے پر اہلکاروں نے ان پر ہتھیار تان لیے، ''ہمیں بری طرح سے پیٹا گیا، ہم پر ہتھیار تانے گئے اور پھر ہماری ہی قیمضوں سے ہمیں بلائینڈ فولڈ کر کے اس ادارے کی عمارت میں موجود ٹارچر سیل پہنچا دیا گیا۔‘‘

اقرار الحسن نے بتایا کہ اس دوران انہیں اور ان کی ٹیم کے اراکین کو برہنہ کر کے ان کی ویڈیوز بھی بنائی گئیں، جب کہ بجلی کے جھٹکے تک دیے گئے۔

اقرار الحسن نے بتایا کہ وزیراعظم دفتر کی جانب سے براہ راست مداخلت پر انہیں آئی بی کی قید سے رہائی ملی۔ جب کہ بعد میں ان اہلکاروں کی معطلی کا احکامات بھی سامنے آئے۔

اس واقعے کے بعد اقرار الحسن کی خون میں لت پت تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہیں اور سوشل میڈیا پر سیاسی رہنماؤں، صحافیوں اور عام شہریوں نے اس واقعے کی مذمت کی۔

ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں اقرار الحسن کا کہنا تھا کہ ان اہلکاروں کی محض معطلی کافی نہیں بلکہ انہیں گرفتار کر کے ان پر دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات چلائے جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی ٹیم کا ایک رکن شدید زخمی حالت میں اب بھی ہسپتال میں داخل ہے اور ایسے میں اگر یہ اہلکار سزا دیے بغیر چھوڑے جاتے ہیں تو یہ ایک نہایت منفی پیغام کا باعث ہو گا۔

اقرار الحسن ٹی وی پر اپنے پروگرام سرعام میں معاشرے میں موجود کرپشن، ملاوٹ، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور دیگر برائیوں کو عیاں کرتے ہیں۔ پاکستان میں ان کا پروگرام عوام میں انتہائی مقبول ہے۔ اپنے اس پروگرام کے لیے وہ پہلے بھی کئی مرتبہ تشدد اور دھمکیوں کا سامنا کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس واقعے کے بعد بھی اپنا پروگرام ماضی کی طرح جاری رکھیں گے۔