’معاملہ صرف اسپین کے بینکوں کا نہیں‘، جرمن ارکان اسمبلی
20 جولائی 2012جرمن پارلیمان میں اسپین کے بینکاری نظام کو مستحکم کرنے والے اس پیکج کی منظوری میں کوئی خاص مشکلات سامنے نہیں آئیں۔ یورپی یونین کے اس پیکج کے حق میں 473 ارکان نے ووٹ دیے، 97 ووٹ اس کے خلاف تھے جبکہ 13 ارکان نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔
اس موقع پر جرمن وزیر خزانہ وولفگانگ شوئبلے نے کہا کہ اس بیل آؤٹ پیکج کی اشد ضرورت ہے کیونکہ آج کل مالیاتی منڈیوں کو ’ہنگامی‘ صورتحال کا سامنا ہے۔ ووٹنگ سے قبل شوئبلے نے حکومتی وضاحتی بیان میں کہا کہ اسپین کے بینکنگ نظام کو درپیش مشکلات مالیاتی منڈیوں پر اثر انداز ہو رہی ہیں اور اس طرح پورے یورو زون کا اقتصادی شعبہ غیر مستحکم ہو سکتا ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے یقین دہانی بھی کرائی کہ میڈرڈ حکومت نے ہر طرح سے اس پیکج کے لیے ضمانت فراہم کی ہے۔ حزب اختلاف سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن فرانک والٹر اشٹائن مائر نے کہا کہ ان کے جماعت سے تعلق رکھنے والے متعدد ارکان اسمبلی اس بیل آؤٹ پیکج کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں۔’’بہت سے ارکان نے اس وجہ سے پیکج کے حق میں ووٹ دیا ہے کہ معاملہ صرف ہسپانوی بینکوں کا نہیں بلکہ یورپی یونین کے اقتصادی شعبے کا ہے‘‘۔
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی ایک اور رکن آندریا نہَلیس کے بقول ’’اسپین یورو زون کی چوتھی بڑی معیشت ہے اور اس کے چند بینکوں کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے اور اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو پھر سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک بھی جرمنی ہی ہو گا۔ ایک طرح سے یہ بیل آؤٹ پیکج جرمنی کے حق میں ہے۔‘‘
میڈرڈ حکومت نے 25 جون کو اپنے بینکوں کے لیے یورپی مالیاتی استحکام فنڈ ’ EFSF‘ سے امداد حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ طور پر درخواست دی تھی۔ اسپین کو سو ارب مالیت کے اس بیل آؤٹ پیکج کی رقم 18ماہ کے دوران مختلف اقساط میں فراہم کی جائے گی۔ اس میں جرمنی کا حصہ تقریباً 29 فیصد ہے۔
اسی دوران گزشتہ ہفتے ہسپانوی حکومت نے ملک کی کمزور ہوتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے لیے مزید بچتی اقدامات کا اعلان کیا۔ منصوبے کے تحت 2014ء کے اختتام تک تقریباً 65 ارب یوروکی بچت کی جائے گی۔ تاہم اس فیصلے کے خلاف ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے بھی ہوئے۔
احتجاج میں شریک51 سالہ ایک سرکاری افسر نے کہا ’’حکومت کے اقدامات کے خلاف ہمارے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ ہم سڑکوں پر نکلیں۔ ان اقدامات سے مالی بحران پر قابو نہیں پایا جا سکتا‘‘۔ مزدورں کی بڑی تنظیموں نے ملک کے 80 سے زائد شہروں میں احتجاج کی کال دی تھی۔
ai / ab (AFP)