1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مصر کو الجزائر نہیں بننے دیا جائے گا، اخوان المسلمون

21 جون 2012

مصر میں صدارتی الیکشن کے نتائج کے سرکاری اعلان میں تاخیر کر دی گئی ہے۔ اخوان المسلمون کے علاوہ عوام بھی اس تاخیر پر بےچین ہیں۔ اسلام پسند جماعت اخوان المسلمین کا کہنا ہے کہ وہ سیاسی انداز سے ہی معاملات کو حل کریں گے۔

https://p.dw.com/p/15J5y
تصویر: AP

مصر کی مختصر مدت کے لیے قائم رہنے والی پارلیمنٹ کے اسپیکر سعد الکتاتنی کا کہنا ہے کہ آمریت کی جگہ مصر میں پارلیمانی حکومت کے قیام کی راہ ہموار کرنے پر فوج کچھ برس اقتدار پر قابض رہ سکتی ہے اور اگر ایسا ہوا تو اخوان المسلمون ان کے خلاف اس انداز کی کوئی لڑائی نہیں شروع کرے گی جیسا کہ الجزائر میں دیکھی گئی تھی۔ پارلیمنٹ کی تحلیل کے بعد سعد الکتاتنی کا یہ پہلا انٹرویو ہے۔ حسنی مبارک کو اقتدار سے فارغ کرنے پر انہوں نے فوج کا شکریہ بھی ادا کیا۔

Mohammed Morsi Ägypten Wahl 2012 Präsidentschaftswahl
اخوان المسلمون کے مطابق محمد مُرسی الیکشن جیت گئے ہیںتصویر: dapd

سعد الکتاتنی نے واضح کیا کہ مصری عوام کے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہے اور ان کا اسلحہ صرف قانونی اور مقبولیت کا راستہ ہے۔ الکتاتنی نے واضح کیا کہ الجزائر میں وقوع ہونے والی خونی تحریک کسی طور مصر میں ظاہر نہیں ہو گی۔ شمالی افریقی ملک الجزائر میں سن 1990 سے حکومت کے خلاف مسلمان انتہاپسندوں کی جاری تحریک میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد الجزائری باشندے ہلاک ہو چکے ہیں۔ غیر قانونی قرار دی جانے والی پارلیمنٹ کے سابق اسپیکر کا یہ بھی کہنا ہے کہ مصری عوام مختلف ہیں اور وہ مسلح نہیں ہیں۔

مصر میں اسی اور نوے کی دہائیوں میں کٹر عقیدے کے حامل سلفیوں نے حکومت کے خلاف پرتشدد تحریکیں ضرور شروع کی تھیں تاہم یہ کامیابی سے بھی ہمکنار نہیں ہوئی تھیں۔ ان شدت پسندانہ تحریکوں میں اخوان المسلمون کے کارکن شریک نہیں تھے اور نہ ہی اخوان نے ان کی کھل کر حمایت کی تھی۔ مصر میں 1928 میں قائم ہونے والی مذہبی تحریک برسوں برس قبل مسلح جدوجہد کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ترک کر چکی ہے۔ فلسطینی علاقے میں سرگرم انتہاپسند حماس اور شام میں متحرک اخوان المسلمون بھی مصری تنظیم سے متاثر تصور کی جاتی ہیں لیکن ان کا مصری تنظیم سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔

مصر کے سیاسی منظر پر بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حکمران عسکری کونسل اور اخوان المسلمون کے رہنما قطبین پر بیٹھے ہیں اور ان کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری ہے۔ ہفتے اور اتوار کے روز ہونے والے صدارتی الیکشن کے نتائج کو ابھی تک روک کر رکھا گیا ہے اور اس پر بھی مصری عوام میں بےچینی پائی جاتی ہے۔ اخوان المسلمون کے مطابق اس کے امیدوار محمد مُرسی صدارتی الیکشن کو جیت چکے ہیں۔ دستوری عدالت کے فیصلے کے بعد تحلیل ہونے والی پارلیمنٹ کے اسپیکر نے بھی پورے یقین سے کہا ہے کہ محمد مُرسی کی کامیابی میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور وہ سو فیصد کامیاب ہو چکے ہیں۔

Ägypten Kairo Abstimmung über Verfassungsrat im ägyptischen Parlament
سعد الکتاتنی (دائیں جانب) ووٹ ڈالتے ہوئےتصویر: picture-alliance/dpa

مصر کے الیکشن کمیشن نے بدھ کے روز کہا تھا کہ وہ الیکشن کے دوران ہونے والی مختلف بےضابطگیوں اور دوسری فراڈ کے الزامات کا جائزہ لینے کے تناظر میں نتیجے کو ملتوی کر رہا ہے۔ کمیشن کے مطابق اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ ایسے الزامات، الیکشن کے حتمی مرحلے پر اثراندار ہوئے ہوں اور ان کے باعث یقینی طور پر نتیجہ بھی متاثر ہو سکتا ہے۔

مصر کی حکمران عسکری کونسل کو پارلیمنٹ کے اختیارات اپنے قبضے میں لینے کے بعد دستوری دستاویز جاری کرنے پر انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ امریکی شہر نیویارک میں قائم انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ تازہ اقدامات اس شبے کو تقویت دے رہے ہیں کہ فوجی جنرل پہلی جولائی کو سویلن صدر کو اقتدار اور اختیارات منتقل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ تنظیم کے مطابق فوجی کونسل کے اقدامات سے ایسی فضا تیار ہو رہی ہے جس میں انسانی حقوق کے منافی اقدامات اٹھائے جا سکیں گے۔

ah/shs (Reuters, AFP)