مصر: محمد بدیع اور دیگر سینکڑوں کی سزائے موت برقرار
21 جون 2014خبررساں ادارے اے پی نے بتایا ہے کہ ہفتے کے دن قاہرہ کے جنوب میں واقع المنیا نامی شہر میں ایک فوجداری عدالت کے جج سعید یوسف نے ان ملزمان کو گزشتہ برس چودہ اگست کو الاضوا نامی شہر میں واقع ایک پولیس اسٹیشن پر حملے میں ملوث پایا۔ اس واقعے میں ایک پولیس اہلکار اور ایک شہری مارا گیا تھا۔
مصر کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کو فوج کی طرف سے معزول کرنے کے بعد اخوان المسلمون کے خلاف شروع ہونے والے کریک ڈاؤن کے نتیجے میں محمد بدیع کو دوسری مرتبہ موت کی سزا سنائی گئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ قاہرہ کی ایک جیل میں قید محمد بدیع المنیا کی عدالت میں پیش نہیں کیے گئے۔
ہفتے کے دن عدالتی حکام نے تصدیق کی کہ اس مقدمے میں عدالت نے 496 ملزمان کو بری کر دیا جبکہ چار کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کر دی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ قبل ازیں یوسف نے اس کیس کے تحت 683 افراد کو موت کی سزا سنائی تھی۔ بدیع اور ان کے حامیوں کے وکلاء نے کہا ہے کہ وہ اس سزا کے خلاف اپیل کریں گے۔
مصری اور بین الاقوامی سطح پر سرگرم انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس مقدمے کی کارروائی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ برق رفتاری سے چلائے جانے والے اس مقدمے کی شفافیت پر سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس عدالتی فیصلے کو ’پیچھے کی طرف ایک منفی قدم‘ قرار دیا ہے۔
گزشتہ برس جولائی میں مرسی کو اقتدار سے الگ کرنے کے بعد فوجی حمایت یافتہ عبوری حکومت نے مرسی اور اخوان المسلمون کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کر دیا تھا، جس کے نتیجے میں اسلام پسندوں کی ایک بڑی تعداد کے خلاف مختلف نوعیت کے مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔
قاہرہ کے انسانی حقوق کے ایک معروف کارکن اور وکیل نجاد البرعی نے اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ عرصے کے دوران مصر میں موت کی سزا سنائے جانے کے واقعات میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے، جس سے معاشرے میں مزید تشدد بھڑکنے کا خدشہ ہے۔ انہوں نے اس کیس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی طور پر اس طرح کی سزاؤں سے کوئی بہتری پیدا نہیں ہو گی کیونکہ لوگ سمجھ چکے ہیں کہ اس طرح کی سزائیں کیوں دی جاتی ہیں۔
یہ امر اہم ہے کہ اسلام پسندوں کے خلاف شروع کیے گئے کریک ڈاؤن کے نتیجے میں مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے مابین ہونے والی مختلف جھڑپوں میں چودہ سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباﹰ پندرہ ہزار افراد گرفتار بھی کیے گئے ہیں، جن میں فوج کی حمایت یافتہ حکومت کی مخالفت کرنے والے سکیولر اور لبرل کارکن بھی شامل ہے۔