مصالحت کے راستے ترکی نے خود بند کیے، اسرائیلی وزیر خارجہ
10 جولائی 2011گزشتہ جمعہ کے روز پارلیمان سے اپنے خطاب میں ترک وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن نے اپنے مطالبے کو دہرایا تھا کہ اسرائیلی حکومت گزشتہ برس غزہ جانے والے ترک بحری قافلے پر کیے گئے حملے پر معافی مانگے اور غزہ کی ناکہ بندی ختم کر دے۔ اسرائیلی کمانڈوز کی طرف سے غزہ جانے والے ترک بحری قافلے پر حملے کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ اس واقعہ میں آٹھ ترک باشندے مارے گئے تھے۔
ترک حکومت کے اس مؤقف پر اتوار کو اسرائیلی وزیر خارجہ ایوگڈور لیبرمن نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ انقرہ حکومت نے اسرائیل کے ساتھ بہتر تعلقات بحال کرنے کی راہ میں خود ہی رکاوٹ کھڑی کر دی ہے۔ ایک مقامی ریڈیو سے گفتگو کے دوران ترک وزیر اعظم کے اس نئے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے لیبر من نے کہا،’ یہ واضح ہے کہ وہ نہ مصالحت چاہتے ہیں، نہ امن چاہتے ہیں اور نہ ہی اس تناؤ کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ صرف اسرائیلی ریاست کی توہین چاہتے ہیں‘۔ لیبرمن نے مزید کہا کہ ترک حکومت نے مصالحت کے تمام راستے خود ہی بند کر دیے ہیں۔
ترک حکومت کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے غزہ کی ناکہ بندی ناجائز ہے اور اس کے نتیجے میں وہاں کے عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں، اس لیے یہ ناکہ بندی فوری طور پر ختم کر دینی چاہیے۔ تاہم اسرائیل کا مؤقف ہے کہ ناکہ بندی کا مقصد غزہ میں اسلحے کی اسمگلنگ روکنا ہے کیونکہ دوسری صورت میں غزہ میں برسر اقتدار قابض حماس اسلحہ حاصل کرنے کے بعد اسرائیلی علاقوں پر حملے شروع کر دے گا۔
دوسری طرف وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی حکمران پارٹی سے وابستہ ایک اعلیٰ رہنما ژوای ہؤسر کا خیال ہے کہ ترکی کے ساتھ اچھے تعلقات اسرائیل کے مفاد میں ہیں۔ اتوار کے روز انہوں نے آرمی ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ تاہم اس کے لیے اسرائیل کے تحفظات کو ملحوظ رکھنا ضروری ہو گا۔ نیتن یاہو کی کابینہ کی سیکرٹری ہؤسر نے امید ظاہر کی کہ ترکی کے ساتھ مصالحت کا کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکل آئے گا۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: عصمت جبیں