1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشینوں کے غلام لوگ زندگی کے راستے سے بھٹکنے لگے

12 فروری 2025

ایئر کنڈیشنڈ گاڑیوں، مفت انٹرنیٹ ڈیٹا، اور گوگل میپ کے ساتھ، اب کسی سے بات کرنا یا اپنی عقل کا استعمال کرنا پرانے زمانے کی بات لگتی ہے۔

https://p.dw.com/p/4qMNw
Rohinee Singh - DW Urdu Bloggerin
تصویر: Privat

کبھی وہ بھی دن تھے جب گاڑی کی کھڑکیاں کھول کر تازہ ہوا کو گلے لگاتے، راستوں کے حسین مناظر دیکھتے، اور سفر کو زندگی کا ایک خوبصورت حصہ سمجھتے تھے۔ گاڑی میں گیت گانے اور قہقہے لگانے کا ایک الگ ہی مزا تھا۔ اگر راستہ بھول بھی جاتے تو کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی، بس رفتار کم کرتے اور سامنے نظر آنے والے کسی راہگیر سے راستہ پوچھ لیتے۔ یہ سیدھا سادہ عمل صرف منزل تک پہنچانے کا ذریعہ نہ ہوتا بلکہ دلوں کو بھی قریب کر دیتا۔

راستہ بھول جانا بھی ایک ایڈونچر ہوتا تھا، جس میں اگلے راہگیر سے بات کرنے کا بہانہ ملتا تھا۔ وہ راہگیر نہ صرف دائیں یا بائیں مڑنے کا مشورہ دیتا بلکہ قریب کے درخت، مسجد یا چائے کے ہوٹل کا حوالہ بھی دے دیتا تاکہ آپ دوبارہ نہ بھٹکیں۔

اگر آپ کسی گاؤں میں کسی کا گھر ڈھونڈ رہے ہوتے، تو نکڑ پر کھڑا کوئی نوجوان لڑکا خوشی خوشی آپ کو وہاں تک چھوڑنے کے لیے آپ کی گاڑی میں سوار ہو جاتا۔ اور اگر خوشی کا کوئی موقع ہوتا، تو وہ چائے اور ناشتے کے بغیر رخصت بھی نہ ہوتا۔

ایسے ہی راستے پوچھنے کے واقعات نے کئی بار انوکھے رشتے بھی بنائے۔ کہنے کو تو ایک اجنبی نے راستہ بتایا، لیکن یہ سلسلہ آگے بڑھا اور وہ اجنبی زندگی کا ساتھی بن گیا۔ گاؤں دیہاتوں میں یہ کہانیاں عام تھیں جہاں کسی کی مدد کرنے والا ہی بعد میں شادی کے بندھن میں بندھ جاتا تھا۔ شاید یہی انسانی رابطے کی خوبصورتی تھی کہ راستہ پوچھنے کی بہانے دل بھی مل جایا کرتے تھے۔

مگر اب وہ دن قصۂ پارینہ بن چکے ہیں

آج، ان لمحوں کی جگہ ٹیکنالوجی نے لے لی ہے۔ ایئر کنڈیشنڈ گاڑیوں، مفت انٹرنیٹ ڈیٹا، اور گوگل میپ کے ساتھ، اب کسی سے بات کرنا یا اپنی عقل کا استعمال کرنا پرانے زمانے کی بات لگتی ہے۔ ہمیں اب ایک ایسی مشین پر بھروسہ ہے جو ہمیں ایسے راستوں پر بھی لے جا سکتی ہے جہاں سڑک کا وجود ہی نہ ہو۔

انسانوں سے بات کرنا توہین سمجھا جاتا ہے، اور اب ہم ایک ایسی مشینی آواز پر اعتماد کرتے ہیں جو ہمیں ایسے راستوں پر لے جا سکتی ہے جہاں سڑک کا نام و نشان بھی نہ ہو۔

ایسا ہی ایک واقعہ حال ہی میں آسام پولیس کے ساتھ پیش آیا۔ وہ ایک مجرم کو پکڑنے کے لیے گوگل میپ کے سہارے روانہ ہوئی۔ لیکن یہ "ذہین" نقشہ انہیں پڑوسی ریاست ناگالینڈ کے چائے کے باغات میں لے گیا۔ وہاں پولیس والوں نے مزدوروں سے تفتیش شروع کی۔ ان 8-9 پولیس اہلکاروں میں صرف دو وردی میں تھے، باقی سب سادہ کپڑوں میں تھے۔ مزدوروں نے انہیں ٹھگ سمجھ کر گھیرا اور یرغمال بنا لیا۔

رات بھر ان پولیس اہلکاروں کی "خاطر تواضع" کی گئی، اور انہیں صرف چاول اور دال کھانے کو ملی۔ اگلی صبح ناگالینڈ پولیس نے انہیں بازیاب کیا۔ اگر وہ مقامی لوگوں سے راستہ پوچھ لیتے تو شاید یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔

یہ واقعہ ٹیکنالوجی کے غلط استعمال کی ایک مثال ہے۔ ہم انسانوں سے زیادہ مشینوں پر بھروسہ کر بیٹھے ہیں، چاہے اس کا انجام کتنا ہی خوفناک کیوں نہ ہو۔

ٹیکنالوجی کی یہ دیوانگی صرف پولیس تک محدود نہیں۔ اتر پردیش کے بدایوں ضلع میں جی پی ایس پر اعتماد کرتے ہوئے ایک کار نامکمل پل پر جا پہنچی۔ پل تو دریا کے رخ بدلنے کی وجہ سے سالوں پہلے بند ہو چکا تھا، مگر گوگل میپ کو یہ خبر نہ تھی۔ نتیجہ؟ گاڑی پل سے 50 فٹ نیچے دریا میں جا گری اور تین قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں۔

یہ ٹیکنالوجی کے غلام بننے کی وہ کہانیاں ہیں جو ہمیں روز سنائی دیتی ہیں۔ انسان اب اپنی عقل اور جذبات سے زیادہ مشینوں پر بھروسہ کرتا ہے۔ شاید اسی لیے آج کے سماج میں حقیقی دوستوں کی جگہ فیس بک کے ہزاروں "فرینڈز" نے لے لی ہے، لیکن وہ دل سوزی اور ہمدردی کہیں کھو گئی ہے۔

علامہ اقبال نے کئی دہائیاں پہلے ہی اس خطرے کو بھانپ لیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا:

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت

احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

سوچئے، کیا واقعی یہ ترقی ہے؟ ہم نے ٹیکنالوجی کو اپنی مددگار بنایا تھا، لیکن اب یہ ہماری زندگیوں پر حکومت کر رہی ہے۔ راستے کھونے کے خوف سے ہم نے وہ خوشبو، وہ راستوں کے قصے، اور وہ زندگی کی معصوم خوشیاں کھو دی ہیں۔

وقت آگیا ہے کہ ہم مشینوں پر اندھا بھروسہ کرنا چھوڑ دیں۔ اگلی بار جب آپ سفر پر نکلیں، تو ایک لمحے کے لیے رکیں، کسی راہگیر سے راستہ پوچھیں۔ شاید وہ نہ صرف آپ کو منزل تک پہنچائے بلکہ ایک نیا دوست بھی بن جائے۔ یا شاید، آپ کی زندگی کا ساتھی۔

یاد رکھیں، گوگل میپ آپ کو منزل کا راستہ دکھا سکتا ہے، لیکن زندگی کا اصل راستہ صرف انسانوں سے رابطے اور شعور کے ذریعے ہی مل سکتا ہے۔

 

Rohinee Singh - DW Urdu Bloggerin
روہنی سنگھ روہنی سنگھ نئی دہلی میں مقیم فری لانس صحافی ہیں۔