مشرق وسطیٰ میں امن کے لئے یورپی یونین کا کردار
6 جنوری 2009سرکاری لحاظ سے دیکھا جائے تو مشرق وسطیٰ کی جنگ روکنے کے لئے کی جانے والی مصالحتی کوششوں میں یورپی یونین کا کردار فیصلہ کن ہے۔ برسلزکےسرکاری مؤقف کے مطابق شوارزن برگ وفد یا سارکوزی کی کوششیں اس کام میں ہاتھ بٹانے کے مترادف ہیں۔ یورپی کمیشن کے ترجمان Amadeu Altafaj نے کہا کہ ہر وہ کوشش قابل تحسین ہے جس کے ذریعے یورپی یونین کا مشترکہ پیغام جنگی فریقین تک پہنچانے میں مدد مل سکتی ہو۔
سرکاری بیان کی حد تک تو سب ٹھیک نظر آتا ہے۔ لیکن حقیقت میں یورپی یونین اندرون خانہ کھینچا تانی کی ایک افسوس ناک تصویر پیش کر رہی ہے۔ یونین کے صدر کےطور پر چیک ریپبلک کا کردار پہلے ہی کمزور ہے۔ اوپر سے اندرونی جھگڑے نے اسے بے بس کر رکھا ہے۔
دوسری جانب فرانسیسی صدر سارکوزی کا طرز عمل یوں ہے جیسے وہ ابھی تک یورپی یونین کی صدارت کا فریضہ انجام دے رہے ہوں۔ حالانکہ فرانس اپنی چھ ماہ کی صدارتی مدت پوری کر چکا ہے۔ سارکوزی قیادتی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں اور وہ کر بھی سکتے ہیں لیکن انہیں اس کی اجازت نہیں ہے۔
سب سے مضحکہ خیز صورت حال کا سامنا فرانسیسی وزیر خارجہ Bernard Kouchner کو ہے۔ وہ اس وفد میں شامل ہیں جن کی قیادت چیک ریپبلک کے وزیر خارجہ Schwarzenberg کر رہے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ مشرق وسطیٰ جنگ کے بارے میں دونوں وزرائے خارجہ مختلف بیانات دے رہے ہیں۔ Schwarzenberg کہتے ہیں کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے جب کہ Kouchnerکے نزدیک یہ جنگ دفاع کے زمرے میں نہیں آتی۔
ادھر جرمنی نے بھی اپنا ایک خصوصی ایلچی مشرق وسطیٰ روانہ کر رکھا ہے۔ جب تک یورپی یونین یکساں مؤقف پر مبنی ہم آہنگی ظاہر نہیں کرتی، سفارتی محاذ پر اسے کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس کا ثبوت اسرائیل کا طرز عمل ہے جو یورپ کی مصالحتی کوششوں کو کوئی وقعت نہیں دیتا۔
یورپی یونین کے لئے اس وقت کچھ کر دکھانے کا سنہری موقع ہے کیونکہ امریکہ جارج ڈبلیو بش کی پالیسیوں کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں ناکام ہو چکا ہے۔