1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرق وسطٰی کے ليے جرمن خارجہ پاليسی

20 دسمبر 2012

عرب دنيا ميں جو تبديلياں آئی ہيں اُن کا ساتھ دينے کے ليے جرمنی نے بھی اپنی خارجہ پاليسی ميں ضروری ردو بدل کيا ہے۔ يہ محسوس کيا گيا ہے کہ جرمنی نے عرب ممالک ميں انسانی حقوق اور قانون کی عملداری کو نظر انداز کيا ہے۔

https://p.dw.com/p/176A4
تصویر: picture-alliance/dpa

جرمن وزارت خارجہ کے ترجمان آندرياس پيشکے نے عرب دنيا کے حوالے سے جرمن خارجہ پاليسی کے بارے ميں ڈوئچے ويلے کے تحريری سوالنامے کے جواب ميں لکھا ہے کہ جرمنی نے اس خطے ميں اپنی خارجہ پاليسی کی راہ تلاش کر لی ہے۔ اس ميں يہ بھی کہا گيا ہے کہ جرمنی نے شروع ہی سے عرب دنيا ميں جمہوری تبديليوں کی حمايت کی ہے۔ اُس نے ہميشہ ہی يہ بھی واضح کيا ہے کہ بڑی معاشرتی تبديليوں کے دوران بھی انسانی حقوق کا احترام کيا جانا چاہيے۔ نئی حکومتوں کو معاشرے کے تمام گروپوں اور مذہبی گروپوں کو بنيادی حقوق اور مواقع فراہم کرنا چاہئيں۔

تاہم عرب دنيا ميں آنے والی تبديليوں سے جرمن وزارت خارجہ کو يہ موقع بھی ملا کہ يہ تبديلياں واقع ہونے سے پہلے حالات کا ايک بار پھر تنقيدی جائزہ ليا جائے۔

جرمنی مصر اور تيونس کے سابق مطابق العنان حکمرانوں کے ساتھ سلامتی، پناہ گزينوں کے بارے ميں پاليسی اور تجارت و تعاون کے شعبوں ميں تعاون کر چکا ہے۔ جرمنی کی سوشل ڈيمو کريٹک پارٹی ايس پی ڈی سے قربت رکھنے والی فريڈرش ايبرٹ فاؤنڈيشن کے مشرق وسطٰی اور شمالی افريقہ کے امور کے ذمہ دار ہايو لانس نے کہا کہ جرمن حکومت پر يہ الزام نہيں لگايا جا سکتا کہ اُس نے ان دونوں ممالک کی سابقہ حکومتوں کو طاقتور بنايا يا ان کے قائم رہنے ميں مدد دی تھی۔ ليکن انہوں نے يہ تسليم کیا کہ ان ممالک کے عوام کے مسائل، انسانی حقوق اور کھلے سياسی نظام جيسے امور کو نظر انداز کيا گيا۔

جرمن پارليمنٹ کی خارجہ امور کی کميٹی کے چيئر مين روپريشت پولنس کا نقطہء نظر بھی يہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جرمن حکومت عرب ممالک سے اقتصادی تعاون اور بين الاقوامی دہشت گردی کے بارے ميں بات چيت کرتی، محفوظ سرحدوں کے اندر دو رياستی حل کی بنياد پر اسرائيل کی حمايت کرتی ہے اور وہ قانونی رياست اور انسانی حقوق کے ليے بھی آواز بلند کرتی ہے ليکن عملی طور پر انسانی حقوق کو نظر انداز ہی کر ديا جاتا ہے۔

جرمن وزير خارجہ ويسٹر ويلے
جرمن وزير خارجہ ويسٹر ويلےتصویر: picture-alliance/dpa

شام کی صورتحال جرمنی سے بھی اقدامات کی تقاضہ کرتی ہے جہاں طاقت کا استعمال جاری ہے۔ فريڈرش ايبرٹ فاؤنڈيشن کے ہايو لانس نے کہا کہ چند ہفتے قبل قائم ہونے والے شامی اپوزيشن اتحاد کو مدد دينا عقلمندی کی بات ہو گی اور اسے اسلحہ دينے پر بھی غور کرنا ہو گا تاکہ شامی حکومت کے نسل کشی کے مترادف فوجی حملوں کو روکا جا سکے۔

جرمن حکومت نے اسرائيلی فلسطينی تنازعے ميں اقوام متحدہ ميں فلسطين کی غير رياستی رکنيت کی مخالفت نہيں کی کيونکہ فلسطينيوں نے اپنی قرارداد ميں 1967 کی سرحدوں کے اندر اسرائيل کو تسليم کيا ہے۔ اس طرح جرمنی نے دو رياستی حل کے حوالے سے اسرائيل کی جانب بھی ايک مضبوط پيغام بھيجا ہے۔

K.Knipp,sas/A. Noll,ij