1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرقی شام میں جہادیوں کے مابین لڑائی، ہزاروں افراد ہجرت پر مجبور

Maqbool Malik4 مئی 2014

مشرقی شامی صوبے دیرالزور میں القاعدہ سے وابستہ النصرہ فرنٹ اور اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ شام کے عسکریت پسندوں کے درمیان شدید جھڑپیں چھڑ جانے کے بعد ہزار ہا شہریوں کو دیگر علاقوں کی جانب ہجرت کرنا پڑی ہے۔

https://p.dw.com/p/1BtTm
تصویر: Guillaume Briquet/AFP/Getty Images

شام میں انسانی حقوق پر نگاہ رکھنے والی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق بدھ کے دن سے جاری ان جھڑپوں کے نتیجے میں اب تک تقریباﹰ 60 ہزار افراد کو اپنے گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات کی جانب نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی جانب سے ہدایات کے باوجود ان دونوں شدت پسند گروہوں کے درمیان لڑائی ختم نہیں ہوئی۔ بتایا گیا ہے کہ مشرقی شام میں 35 ہزار آبادی والا علاقہ بُسیریا، 12 ہزار نفوس کا قصبہ ابریحا اور 15 ہزار افراد کے قصبے الزیر سے تقریباﹰ تمام افراد ہجرت کر گئے ہیں۔

سیریئن آبزرویٹری کے مطابق متعدد علاقوں میں شدت پسندوں نے کئی مکانات بھی نذر آتش کیے ہیں۔ آبزرویٹری کا کہنا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے جاری اس لڑائی میں اب تک 62 عسکریت پسند ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان دونوں گروپوں کے درمیان تازہ جھڑپ بدھ کے روز عراقی سرحد کے قریب واقع شامی علاقے دیرالزور میں شروع ہوئی۔ بتایا گیا ہے کہ اب یہ لڑائی تقریباﹰ دس کلومیٹر کے علاقے میں ہو رہی ہے۔ واضح رہے کہ تیل کی دولت سے مالا مال اس علاقے میں تیل اور گیس کا ایک بڑا پلانٹ بھی نصب ہے۔

Syrien Krieg Bürgerkrieg Assad-Regime Freie Syrische Armee Homs 02.07.2013
بدھ کے روز سے دونوں گروپوں کے درمیان لڑائی میں شدت پیدا ہوئی ہےتصویر: Reuters

آبزرویٹری کے مطابق علاقے سے نقل مکانی کرنے والے سینکڑوں افراد ترکی پہنچ چکے ہیں، جب کہ دیگر باغیوں کے زیرقبضہ صوبے دیرالزور کے دیگر علاقوں کی جانب ہجرت کر گئے ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق عمومی طور پر النصرہ فرنٹ اور اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ شام کے القاعدہ سے گہرے روابط کی وجہ سے انہیں ایک دوسرے کا حلیف سمجھا جاتا ہے، تاہم اس لڑائی سے دونوں گروپوں کے درمیان موجود اختلافات واضح ہوتے ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ شامی حکومت کے خلاف برسرپیکار مسلح شامی اپوزیشن ان دونوں گروپوں کو مسترد کرتی ہے۔

خیال رہے کہ شام میں مارچ 2011ء میں حکومت مخالف تحریک کا آغاز ہوا تھا، جو بعد میں پرتشدد رنگ اختیار کر گئی۔ اقوام متحدہ کے مطابق اب تک اس خانہ جنگی میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جب کہ کئی ملین کو مختلف ہمسایہ ممالک کی جانب نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ شامی حکومت نے اگلے ماہ صدارتی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر رکھا ہے، تاہم مغربی ممالک اور شامی اپوزیشن کا موقف ہے کہ موجودہ حالات میں اس اقدام سے مذاکرات کے ذریعے مسئلے کے حل کے امکانات مزید معدوم ہو جائیں گے۔