مشرقی جرمن شہر باؤٹزن کیا خانہ جنگی کے دہانے پر کھڑا ہے؟
17 ستمبر 2016باؤٹزن میں حکام کو خدشہ ہے کہ اس ویک اینڈ پر تارکین وطن کا پس منظر رکھنے والوں اور انتہائی دائیں بازو نظریات کے حامل مقامی افراد کے مابین لڑائی جھگڑے کے نئے واقعات رونما ہو سکتے ہیں۔ اس وجہ سے شہر کے مختلف علاقوں میں پولیس کی تعداد میں نمایاں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں گزشتہ روز جمعے کو پہلے سے طے شدہ ایک مظاہرہ بھی منسوخ کر دیا گیا تھا۔ تاہم حکام کو کہنا ہے کہ حالات بدستور کشیدہ ہیں،’’اتوار کو مہاجرین کے خلاف ایک احتجاج کیا جا رہا ہے اور فساد اچانک شروع ہو سکتا ہے۔‘‘
باؤٹزن میں ہنگامہ آرائی کا آغاز بدھ کے روز اس وقت ہوا، جب 80 کے قریب مقامی افراد اور 20 مہاجرین نے ایک دوسرے پر حملے کیے۔ پولیس کے مطابق حملہ کرنے میں مہاجرین نے پہل کی تھی۔ اس کے بعد جمعرات کو شہر میں مہاجرین کے نکلنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی، جس کے بعد پولیس کے لیے شہر میں انتہائی دائیں بازو اور انتہائی بائیں بازو کے حلقوں کی جانب سے نکالنے والے جلوسوں پر مکمل طور پر توجہ دینا ممکن ہو سکا تھا۔ اس روز شہر میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ باؤٹزن جرمنی کی پولینڈ سے ملنے والی سرحد پر واقع ہے۔
جرمن حکومت کی ترجمان الریکے ڈیمر نے ان واقعات پر براہ راست کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کیا تاہم انہوں نے یہ ضرور کہا،’’ہنگامہ آرائی ہمارے ملک کے شایان شان نہیں ہے‘‘۔ جرمنی میں مہاجر مخالف جماعت ’اے ایف ڈی‘بہت پہلے ہی سے کسی ایسی صورتحال سے خبردار کرتی ہے۔ گزشتہ برس مہاجرین کی آمد کے ساتھ ہی اس شہر میں کئی مرتبہ تارکین وطن کے مراکز کو نشانہ بنایا گیا اور اس دوران تشدد کے کئی واقعات بھی رونما ہو چکے ہیں۔ چالیس ہزار کی آبادی والے باؤٹزن میں صرف دو سو مہاجرین کو پناہ دی گئی ہے۔