1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرف کے غیر آئینی اقدامات، عدالتی فیصلہ برقرار

شکور رحیم، اسلام آباد30 جنوری 2014

پاکستانی سپریم کورٹ نے سابق آمر پرویز مشرف کی 31 جولائی 2009ء کے اس فیصلے پر نظرثانی کی درخواستوں کو مسترد کر دیا ہے جس میں بطور صدر اور آرمی چیف پرویز مشرف کے تین نومبر 2007ء کے اقدامات کو غیر آئینی قرار دیا گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/1Azee
تصویر: dapd

چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے چودہ رکنی لارجر بنچ نے یہ فیصلہ ان نظرثانی درخواستوں کی چار روز تک مسلسل سماعت کے بعد آج جمعرات کو سنایا۔

عدالت نے اپنے اکتیس جولائی دو ہزار نو کے فیصلے کو بر قرار رکھتے ہوئے کہا کہ یہ درخواستیں مقررہ مدت کے چار سال نو ماہ بعد دائر کی گئی ہیں اور یہ میرٹ کے بھی خلاف ہیں۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ درخواست گزار یہ ثابت کرنے میں بھی ناکام رہے کہ اُس دور کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا رویہ متعصبانہ تھا۔

نظرثانی کی درخواستوں کی سماعت کے دوران پرویز مشرف کے وکلاء شریف الدین پیرزادہ اور ابراہیم ستی نےاپنے دلائل میں اس بات پر زور دیا کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری پرویز مشرف سے ذاتی عناد رکھتے تھے۔ ان وکلاء کا یہ بھی کہنا تھا کہ تین نومبر 2007ء کے روز ایمرجنسی کا نفاذ تنہا پرویز مشرف کا فیصلہ نہیں تھا۔

تاہم عدالت نےان دلائل کو مسترد کرتے ہوئے اپنا سابقہ فیصلہ بحال رکھا۔ فیصلے کے بعد پرویز مشرف کے وکلاء کی ٹیم کے رکن بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا، ’’چونکہ یہ فیصلہ پرویز مشرف کے حوالے سے آرٹیکل چھ (سنگین غداری) کے مقدمے پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے، تو ہم اس وجہ سے عدالت میں آئے تھے۔ لیکن ہماری درخواستیں مسترد ہو جانے کے باوجود ہمارا عزم قائم ہے۔ ہم نے پرویز مشرف صاحب کے مقدمے میں دفاع کرنا ہے اور خصوصی عدالت میں جو سماعت جاری ہے، اس میں ہمارے عزم پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ سپریم کورٹ نے ایک غلط فیصلے کو ٹھیک کرنے کا موقع گنوا دیا ہے۔‘‘

Pervez Musharraf 2013
سابق صدر پرویز مشرف کی طرف سے یہ نظر ثانی درخواستیں 2009ء کے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے خلاف دائر کی گئی تھیںتصویر: picture-alliance/dpa

پرویز مشرف کے وکلاء کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے طیارہ سازش کیس میں وزیر اعظم نواز شریف کی نظر ثانی کی درخواست نو سال کی تاخیر سے دائر کیے جانے کے باوجود قبول کر لی تھی لیکن پرویز مشرف کو یہ موقع نہیں دیا گیا۔ پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے میں حکومتی وکلاء کی ٹیم کے رکن اکرام چوہدری کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور پرویز مشرف کے مقدمات میں نظر ثانی کی درخواستیں دائر کیے جانے میں تاخیر کی نوعیت ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ انہوں نے کہا، ’’نواز شریف کے مقدمے میں انہیں سزا ہوئی تھی۔ وہ پاکستان سے باہر تھے اور انہیں پاکستان آنے سے روکا گیا تھا۔ لہٰذا وہ مقدمہ بہت مختلف تھا۔ اس مقدمے کی صورتحال یہ ہے کہ انہیں (پرویز مشرف کو) 2009ء میں فارم ہاؤس پر نوٹس بھیجے گئے تھے لیکن وہ عدالت میں تشریف نہیں لائے تھے۔‘‘

دوسری جانب پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت میں جاری غداری کے مقدمے میں استغاثہ کی جانب سے ملزم کی صحت کے بارے میں فوجی ہسپتال کے میڈیکل بورڈ کی رپورٹ کو انتہائی غیر پیشہ ورانہ قرار دیا گیا ہے۔ استغاثہ کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ پرویز مشرف کی طبی رپورٹ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انہیں ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت اگر اس میڈیکل بورڈ کی رپورٹ کو کو ئی وزن دینا چاہتی ہے، تو پھر انہیں فوجی ہسپتال اور میڈیکل بورڈ کے سربراہ میجر جنرل عمران مجید کو بلا کر جرح کرنے کی اجازت دی جائے۔ عدالت نے اس معاملے پر وکلائے صفائی کے دلائل سننے کے لیے مقدمے کی سماعت کل (جمعے) تک کے لیے ملتوی کر دی۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ سے نظرثانی اپیل خارج ہونے کے بعد خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کے وکلاء کی یہ دلیل کمزور پڑ گئی ہے کہ پرویز مشرف نے تین نومبر کو آئین منسوخ یا پامال نہیں کیا تھا بلکہ اس کو معرض التواء میں رکھا تھا۔ ان وکلاء کے مطابق آئین کی پامالی یا منسوخی تو غداری کے زمرے میں آتی ہے لیکن اسے التوا میں رکھنا غداری نہیں۔ تاہم سپریم کورٹ 31 جولائی 2009 ء کے اپنے فیصلے میں آئین کی عارضی معطلی یا منسوخی کو بھی آئین کی پامالی قرار دے چکی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید