1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرف کی ’طبیعت ناساز‘ ہسپتال پہنچا دیا گیا

عابد حسین2 جنوری 2014

پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف کو ’دِل کی تکلیف‘ کے باعث ہسپتال پہنچا دیا گیا ہے۔ پولیس اور ان کے معاونین کا کہنا ہے کہ وہ جمعرات کو عدالت جا رہے تھے کہ انہیں ’دِل میں تکلیف‘ محسوس ہوئی۔

https://p.dw.com/p/1Ak8x
تصویر: picture-alliance/dpa

قبل ازیں آج جمعرات کو ہی ان کے وکلاء عدالت سے یہ کہتے ہوئے واک آؤٹ کر گئے کہ انہیں دھمکایا جا رہا ہے۔ اس مقدمے کی سماعت پہلے 24 دسمبر کو ہونا تھی تاہم سکیورٹی خدشات کی بناء پر سماعت یکم جنوری تک کے لیے ملتوی کر دی گئی تھی۔ تاہم گزشتہ روز بھی پرویز مشرف ایسے ہی خدشات کے باعث عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے۔ انہیں غداری کے مقدمے کا سامنا ہے۔

مشرف کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم چوبیس دسمبر سن 2013 کو دیا گیا تھا۔ اُن کے وکلاء کا کہنا ہے کہ مشرف کا عدالت میں پیش کیا جانا بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ سکیورٹی کے خدشات کے باعث سابق آرمی چیف کے خلاف شروع پاکستانی عدالتی تاریخ کے اہم مقدمے کی کارروائی آگے نہیں بڑھ پا رہی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ کسی سابق آرمی چیف کو غداری کے مقدمے کا سامنا ہوا ہو اور اُسے عدالت کا سامنا کرنا پڑے۔

خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس فیصل عرب پہلی جنوری کو مشرف کے وکلائے دفاع کے سکیورٹی خدشات کے حوالے سے قدرے متفق دکھائی دے رہے تھے۔ انہوں نے مقدمے کی کارروائی آج دو جنوری تک ملتوی کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔ بدھ کے روز ہونے والی کارروائی کے دوران خصوصی عدالت کے سربراہ نے سکیورٹی انتظامات کے حوالے سے اسلام آباد پولیس کے سربراہ کو خصوصی ہدایات بھی جاری کیں اور یہ بھی کہا کہ اگر آج دو جنوری کو مشرف عدالت میں حاضر نہ ہوئے تو اُن کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے جائیں گے۔

Ehemaliger pakistanischer Präsident Pervez Muscharraf
خصوصی عدالت کے سربراہ نے کہا کہ اگر آج دو جنوری کو مشرف عدالت میں حاضر نہ ہوئے تو اُن کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے جائیں گے۔تصویر: picture-alliance/AP

مشرف کے گھر کے راستے میں سکیورٹی حکام کو بارودی مواد ملا تھا۔ یہ تیسری مرتبہ ہے کہ پاکستان کے سابق فوجی صدر کے گھر کے راستے میں سے بارودی مواد کو ملا ہے۔ یہ بارودی مواد اُس راستے سے برآمد ہوا ہے جو مشرف نے اختیار کر کے خصوصی عدالت تک پہنچنا ہے۔ ایسا بھی خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اِس مقدمے کی وجہ سے پاکستان آرمی کے حامیوں میں بےچینی پائی جاتی ہے اور اِس مناسبت سے مشرف کچھ دِن قبل ایک بیان بھی دے چکے ہیں۔

پرویز مشرف کے وکلائے دفاع کا اصرار ہے کہ حکومت یہ مقدمہ جانبداری سے آگے بڑھانا چاہتی ہے اور اِس میں عدالت کی منشا بھی شامل ہو سکتی ہے۔ سن 1999 میں جب سابق آرمی چیف نے حکومت پر قبضہ کیا تھا تو اُس وقت نواز شریف ملک کے وزیراعظم تھے۔ اِس وقت خصوصی عدالت میں جو مقدمہ جاری ہے وہ سن 2007 میں ایمرجنسی کا نفاذ اور ریٹائرڈ چیف جسٹس سمیت کئی ججوں کو فارغ کرنے سے متعلق ہے۔

دو روز قبل منگل کہ پاکستانی فوج کے ریٹائرڈ افسروں کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا اور اُس میں سابق آرمی چیف کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہوئے اِن افسران نے اپنی تشویش بھی ظاہر کی۔ اِس اجلاس میں شریک ایک افسر زوہا سعید کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف ایک اچھے جرنیل تھے اور ایسا امکان ہے کہ اُن کا مقدمہ آزاد اور شفاف نہیں ہو گا۔ دوسری جانب نواز شریف حکومت کے وزیر اطلاعات پرویز رشید کا کہنا تھا کہ مشرف صرف اپنے جرائم کو چھپانے کے لیے فوج کا سہارا لے رہے ہیں اور مشرف کو یہ جاننا چاہیے کہ فوج ایک قومی ادارہ ہے جو فردِ واحد کے لیے نہیں بلکہ پوری قوم کی خدمت کے لیے وقف ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں