1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسلم دنیا میں نسل پرستی کا کیا عالم ہے؟

7 جولائی 2020

بلیک لائیوز میٹر کے نعرے کے ساتھ دنیا بھر میں نسل پرستی کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے ہو رہے ہیں، تاہم یہ بحث بھی جاری ہے کہ عرب دنیا بلکہ مسلم دنیا میں نسل پرستی سے متعلق کس انداز کے رویے پائے جاتے ہیں؟

https://p.dw.com/p/3euXi
Tunesien Tunis | Demonstration gegen Rassismus
تصویر: Getty Images/AFP/F. Belaid

انسانی حقوق کے کارکنان سمجھتے ہیں کہ مسلم دنیا میں نسل پرستانہ رویوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

تیونس میں سیام فام خواتین کے حقوق کی ایک تنظیم کی شریک بانی خوالا کسیکسی کے مطابق، ''ہمارے معاشرے میں سفید رنگت خوب صورتی کا معیار سمجھی جاتی ہے۔‘‘

تھامس روئٹرز فاؤنڈیشن سے بات چیت میں انہوں نے کہا، ''سیاہ رنگ والی خواتین پر دباؤ ہوتا ہےکہ وہ اپنے بال سیدھے کریں، گھنگریالے بالوں سے نجات پائیں اور اپنی جلد کو سفید بنائیں، تاکہ انہیں معاشرہ خوب صورتی کے اپنے معیارات پر قبول کرے۔‘‘

’امریکا کی نسل پرستی سے مسلم برادری بھی متاثر ہو رہی ہے‘

جرمنی میں مساجد پر حملوں میں کمی

اسلام سے خوف کے خلاف اقوام متحدہ میں پاک ترک قرارداد منظور

جنوبی سوڈانی صحافی سوزن کم اٹور کمیونٹی کی بنیاد پر چلنے والے پلیٹ فارم #Defyhatenow سے منسلک ہیں۔ قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ معاشرہ سمجھتا ہے کہ شادی فقط سفید رنگت والی خواتین سے کی جانا چاہیے: ''جب کوئی لڑکی جلد کو سفید بنانے والی بلیچ کریموں کا استعمال روکتی ہے،تو اس کی سہیلیاں اس پر تنقید شروع کر دیتی ہیں۔‘‘

Tunesien, Tunis I Demonstration gegen Rassismus
مریکا میں سفید فام پولیس اہلکار کے ہاتھوں ایک سیام فام امریکی شہری جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کے بعد مظاہرے شروع ہوئے تھے، جو پہلے امریکا اور پھر دنیا بھر میں پھیل گئے۔تصویر: picture-alliance/AA/Stringer

نسل پرستی کی جہت

عرب بلکہ مسلم دنیا میں گہرے رنگ کی خواتین کو جس طرح دیکھا جاتا ہے یا وہ جس طرح خود کو دیکھتی ہیں، ایسے موضوعات میں سے ایک ہے، جن پر بلیک لائیوز میٹر کے مظاہروں کے بعد بحث تیز ہوئی ہے۔ مئی میں امریکی شہر مینیاپولِس میں سفید فام پولیس اہلکار کے ہاتھوں ایک سیام فام امریکی شہری جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کے بعد یہ مظاہرے شروع ہوئے تھے، جو پہلے امریکا اور پھر دنیا بھر میں پھیل گئے۔

انسانی حقوق کے متعدد کارکنان سمجھتے ہیں کہ سیام فام افراد کے خلاف نسل پرستانہ رویے مسلم دنیا میں ایک نئی جہت کے ساتھ مروجہ ہیں۔

جرمنی میں مسلمانوں میں بھی اسی انداز کی گفت گو جاری ہے۔ مسلم تنظیم 'الحمبرا گزیلشافٹ‘ کے ایڈوائزری بورڈ کے رکن اور صحافی و مصنف ایرن گوویسن نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ جرمنی میں مقیم مسلم برادری کے کچھ حصے نسل پرستی سے متعلق اپنے رویوں پر بحث میں مصروف ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''نسل پرستی، سامیت دشمنی اور مختلف برادریوں سے متعلق دیگر طرز کے نفرت انگیز رویوں کی وجوہ قریب قریب ملتی جلتی ہیں۔ لوگوں کی تذلیل اور ہتک آمیزی کے ذریعے لوگ اپنی برتری ظاہر کرتے ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ بعض مسلمان اس مسئلے کو سمجھتے ہیں اور اپنے ضمیر کی آواز پر اس کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں ، ''مگر بعض مسلمان سوچتے ہیں کہ وہ مسائل کو فقط یہ کہہ کر چھپا دیں گے کہ مسلمان کبھی نسل پرست اور سامیت دشمن نہیں ہو سکتا۔ ایسے افراد کسی کی بھی تنقید، خوداحتسابی یا بحث کو اپنی تاریخ اور ثقافت پر حملہ سمجھتے ہیں۔‘‘

نوآبادیاتی دور کے نشانات

ایسے مسلم اکثریتی ممالک جو یورپی قوتوں کی نوآبادیات رہ چکے ہیں، وہاں لوگ خود اپنی ہی رنگ کی بابت ناقدانہ سوچ رکھتے ہیں۔ برٹش سوڈانی فنکار النیال نے سین عریبیہ نامی آن لائن جریدے سے بات چیت میں کہا ، ''میرے خیال میں عرب دنیا میں مغربی نوآبادیاتی دور سے کئی رویے پیدا ہوئے ہیں۔ پھر عربوں نے خود اپنی رنگت اور ثقافت تک سے نفرت شروع کر دی۔ عرب دنیا میں سیاہ رنگ سے نفرت کی کڑیاں یہیں سے ملتی ہیں۔ یہ لوگ اکثر کہتے ہیں کہ وہ جدید ہیں، مگر حقیقت میں ان کا جدت سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘

ع ت / ا ب ا (کرسٹین کنِپ)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید