1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسلمان اور مسیحی ملیشیا کے مابین لڑائی، 400 ہلاک

امتیاز احمد8 دسمبر 2013

وسطی افریقی جمہوریہ میں مسلمان اور مسیحی مسلح گروپوں کے مابین گزشتہ تین روز سے جاری لڑائی کے بعد فرانس نے مزید فوجی اس ملک میں تعینات کر دیے ہیں۔ افریقی سکیورٹی سمٹ میں بھی وسطی افریقی جمہوریہ کی صورتحال مرکزی موضوع رہی۔

https://p.dw.com/p/1AV2r
Zentralafrikanische Republik Gewalt
تصویر: picture-alliance/AP

فرانسیسی وزارت خارجہ اور امدادی تنظیم ریڈکراس کے مطابق وسطی افریقی جمہوریہ کے دارالحکومت بانگوئی میں گزشتہ تین روز سے جاری لڑائی میں کم از کم 400 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ قبل ازیں فرانس کے صدر فرانسوا اولانڈ کا کہنا تھا کہ وہ اپنی اس سابقہ کالونی میں تعینات فوجیوں کی تعداد جلد از جلد بڑھا دیں گے تاکہ سکیورٹی کی صورتحال پر قابو پایا جا سکے۔ گزشتہ روز فرانس کے مزید ایک ہزار فوجی اس ملک میں پہنچے ہیں، جس کے بعد وہاں موجود فرانسیسی فوجیوں کی تعداد 16 سو ہو گئی ہے۔ دوسری جانب افریقی یونین نے اپنے 36 سو فوجی اس ملک میں تعینات کر رکھے ہیں۔ افریقی یونین نے اپنے فوجیوں کی تعداد بڑھا کر چھ ہزار کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

Französische Truppen patrouillieren in Zentralafrikanischer Republik 7.12.13
فرانسیسی صدر کا پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہمارے فوجی اُس وقت تک وسطی افریقی جمہوریہ میں رہیں گے، جب تک ضروری ہوگا۔‘‘تصویر: Reuters/Emmanuel Braun

فرانسیسی حکام کے مطابق گزشہ روز ان کے فوجی کیمرون کی سرحد عبور کرتے ہوئے بانگوئی پہنچ گئے ہیں، جس کے بعد حالات پر سکون ہوئے ہیں۔ وسطی افریقی جمہوریہ وسطی افریقہ میں واقع ہے۔ اس کی سرحدیں شمال میں چاڈ، مشرق میں جنوبی سوڈان، جنوب میں جمہوریہ کانگو اور ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو اور مغرب میں کیمرون سے ملتی ہیں۔

فرانسیسی صدر کا پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہمارے فوجی اُس وقت تک وسطی افریقی جمہوریہ (CAR) میں رہیں گے، جب تک ضروری ہوگا۔‘‘

پیرس میں گزشتہ روز منعقد ہونے والی افریقی سکیورٹی سمٹ کے اختتام پر صدر اولانڈ کا مزید کہنا تھا، ’’ہم تمام اس بنیادی اصول پر متفق ہیں کہ افریقہ کو اپنی سکیورٹی کی ذمہ داری خود اٹھانا ہو گی۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ فرانس وسطی افریقی جمہوریہ کو صرف سامان، لاجسٹک سپورٹ اور مشورے فراہم کر سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے میں جرمنی، برطانیہ اور یورپی یونین کی حمایت بھی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔

مسلمان اور مسیحی عسکریت پسندوں میں لڑائی

تازہ ترین جھڑپوں کا آغاز جمعرات کو اس وقت ہوا تھا، جب عیسائی عسکریت پسندوں کی تنظیم ’اینٹی بلاکا‘ کی طرف سے مسلمان آبادی والے علاقوں کو نشانہ بنایا گیا۔ مسیحی مسلح گروپ مسلمان عسکری گروپ ’سیلیکا‘ کے مخالف ہیں۔ سیلیکا گروپ مختلف مسلمان عسکری گروہوں کے اتحاد سے سن 2012ء میں وجود میں آیا تھا اور ابتدائی طور پر اس گروپ نے حکومت کے ساتھ امن معاہدہ کر لیا تھا۔

ان دو مذہبی گروپوں کے مابین خونی لڑائی رواں برس مارچ سے جاری ہے۔ مارچ میں سابق مسیحی صدر فرانسوا بوزيزےکی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا اور موجودہ صدر میشل جوتودیا عسکری گروپ سیلیکا کی مدد سے اس ملک کے پہلے مسلمان صدر بن گئے تھے۔ جوتودیا سیلیکا کے سربراہ بھی تھے۔ سابق صدر فرانسوا بوزيزے اس وقت جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ وسطی افریقی جمہوریہ کی زیادہ تر آبادی مسیحی ہے۔