مسلمانوں کے قتل پر اکتیس ہندوؤں کے لیے سزائے عمر قید
10 نومبر 2011عمر قید کی سزا کا سامنا کرنے والے افراد پر الزام تھا کہ انہوں نے گجرات میں فسادات کے دوران ایک عمارت کو نذرِ آتش کیا، جس کے نتیجے میں متعدد مسلمان ہلاک ہوئے۔ انہیں اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل کا حق حاصل ہے۔ یہ فیصلہ احمد آباد کی عدالت کے جج ایس سی شری واستوا نے سنایا۔
تفصیلات کے مطابق فسادیوں نے کارروائی احمد آباد کے شمال میں پچیس میل دوری پر ضلع مہنسا کے ایک گاؤں میں کی تھی۔ وہاں انہوں نے ایک عمارت کو آگ لگا دی تھی۔ اس واقعے میں بیس خواتین سمیت اکتیس مسلمان ہلاک ہو گئے تھے، جو فسادات سے بچنے کے لیے وہاں پناہ لیے ہوئے تھے۔
اس مقدمے کی سماعت بھارتی سپریم کورٹ کے احکامات پر شروع ہوئی تھی جبکہ اس مقدمے کا سامنا کرنے والے دو مشتبہ افراد سماعت کے دوران پہلے ہی ہلاک ہو چکے ہیں۔ بھارتی ریاست گجرات میں 2002ء میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے دوران فسادات ہوئے تھے۔ اس دوران ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے بیشتر مسلمان تھے۔ انہیں مشتعل ہندوؤں نے ہلاک کیا تھا۔
یہ فسادات ایک ٹرین میں آگ لگنے کے واقعے کے بعد شروع ہوئے، جس میں زیارت سے لوٹنے والے ساٹھ ہندو ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے لیے مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔ خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق 1947ء میں برطانیہ سے آزادی کے بعد بھارت اور پاکستان میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تعلقات بڑی حد تک پراُمن رہے ہیں۔ اس کے باوجود ان کے درمیان عدم اعتماد کی جڑیں گہری ہیں، جس کی وجہ سے کبھی کبھی پرتشدد واقعات رُونما ہوتے ہیں۔
بھارت کی آبادی ایک اعشاریہ ایک ارب ہے، جس کا چودہ فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ شرح تعلیم سے لے کر گھریلو آمدنی جیسے بیشتر سماجی اشاریوں میں وہ ہندوؤں سے بہت پیچھے ہیں۔
رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے
ادارت: شادی خان سیف