مسجد نبوی کے قریب خودکش حملے میں ’ملوث‘چھیالیس افراد گرفتار
30 اپریل 2017گزشتہ برس جولائی میں ہونے والی اس کارروائی میں چار پولیس اہلکار مارے گئے تھے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق گرفتار ہونے والوں میں بتیس سعودی شہری جبکہ چودہ غیر ملکی شامل ہیں۔ غیرملکیوں میں پاکستانی، یمنی، افغان، مصری، اردنی اور سوڈانی شہری شامل ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ یہ تمام ملزمان ’الحضارات سیل‘ کا حصہ تھے۔
سعودی وزارت داخلہ کےترجمان منصور الترکی کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ یہ افراد پیغمبر اسلام کی مقدس مسجد میں نمازیوں کو نشانہ بنانے جیسے جرم میں براہ راست ملوث ہیں۔‘‘
سعودی عرب کی سرکاری نیوز ایجنسی ایس پی اے کے مطابق ان تمام افراد کو جدہ سے گرفتار کیا گیا ہے۔
اس حملے کے بعد پوری دنیا میں آباد مسلمانوں میں صدمے کی لہر دوڑ گئی تھی کیوں کہ اسلام میں مسجد نبوی دوسرا مقدس ترین مقام ہے۔ سعودی وزارت داخلہ کے مطابق یہی ملزمان اسی مہینے ساحلی شہر جدہ میں ہونے والے ایک خودکش حملے میں بھی ملوث تھے۔ جدہ حملے میں دو پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے۔ گزشتہ کچھ مہینوں سے سعودی عرب نے مشتبہ جنگجوؤں کے خلاف کارروائی میں تیزی پیدا کر دی ہے۔
قبل ازیں آٹھ جنوری کو سعودی حکام کا کہنا تھا ’مسجد نبوی پر حملے‘ کی منصوبہ بندی کرنے والا ایک انتہا پسند پولیس مقابلے میں مارا گیا ہے۔ اس وقت سعودی حکام نے یہ بھی بتایا تھا کہ ناکام حملے کی منصوبہ بندی کرنے والا انتہا پسند ایک اسکالرشپ اسٹوڈنٹ تھا، جس نے اپنی پڑھائی کا سلسلہ ترک کرتے ہوئے انتہا پسند گروہ داعش کی رکنیت اختیار کر لی تھی۔
سعودی حکام کے مطابق جنوری میں فائرنگ کے تبادلے کے دوران نہ صرف طائع الصیعری بلکہ اس کا ایک ساتھی طلال الصاعدی بھی ہلاک ہو گیا تھا۔ بتایا گیا تھا کہ جب پولیس نے چھاپہ مار کارروائی کی تو طائع نے ایک خودکش جیکٹ پہن رکھی تھی جبکہ اس کے پاس ایک مشین گن بھی تھی۔
سعودی حکام کے مطابق الصیعری نیوزی لینڈ میں ایک اسکالرشپ اسٹوڈنٹ تھا لیکن اس نے تعلیم چھوڑ کر شام کا رخ کیا، جہاں اس نے خانہ جنگی میں داعش کے ساتھ مل کر حصہ لیا۔ بعد ازاں وہ ترکی، مصر اور یمن بھی گیا، جہاں سے وہ واپس سعودی عرب لوٹا تھا۔