1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

محمد مرسی کی حکومت کا خاتمہ، اردن کے لیے سکھ کا سانس

عاطف توقیر12 جولائی 2013

گزشتہ ہفتے مصری فوج کے ہاتھوں اسلام پسند صدر محمد مرسی کی برطرفی کے فیصلے پر اردن نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق اس سے اردن میں اسلام پسندوں کے حوصلوں میں کمی آئے گی۔

https://p.dw.com/p/196aO
تصویر: Reuters

خبر رساں ادارے AFP کے مطابق اردن میں اسلام پسند اپوزیشن حکومت پر دستوری اصلاحات کے لیے ایک عرصے سے مسلسل دباؤ ڈال رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ہفتے جب مصری فوج نے اسلام پسند صدر محمد مرسی کے اقتدار کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے ملک کی اعلیٰ آئینی عدالت کے سربراہ کی بطور عبوری صدر تقرری کا اعلان کیا، تو اردن کے شاہ عبداللہ اور حکومت عدلی محمد منصور کو مبارکباد اور تہنیت کے پیغامات بھیجنے والوں میں پیش پیش تھے۔ رواں ماہ 3 جولائی کو مصری فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتح سیسی نے محمد مرسی کی برطرفی کا اعلان کیا تھا اور اس کے چند ہی گھنٹوں بعد اردن کی جانب سے عدلی منصور کو عبوری مصری صدر کا عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دے دی گئی تھی۔ اردن کی جانب سے کہا گیا تھا کہ عمان حکومت ’عظیم مصری عوام کی خواہش ‘ سے اتفاق کرتی ہے۔

القدس سینٹر برائے سیاسی امور سے وابستہ ماہر سیاسیات عريب الرنتاوی کے مطابق اردن کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے بھی مصری فوج کے اس اقدام کی فوری حمایت کے اعلانات دراصل ان ممالک کے اخوان المسلمون کے ساتھ موجود مسائل کی عکاسی کرتے ہیں۔ ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ اردن میں حکومت نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ اب وہاں اخوان المسلمون سے ہمدردی رکھنے والے بھی اسلامی اصلاحات کے منصوبوں پر شکوک و شبہات ظاہر کر رہے ہیں۔‘‘

Jordanien Muslimbrüder
اردون میں اسلام پسندوں نے گزشتہ انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھاتصویر: Dr. Fakher Daas

الرنتاوی کے بقول، ’اب اردن میں اسلام پسندوں کو عوام میں اپنی ساکھ بحال کرنے اور اپنے اور اپنے روایتی حلیفوں کے درمیان موجود خلا کو پر کرنے کے لیے اپنی کوششیں دوگنا کرنا پڑیں گیں۔‘

الرنتاوی کے مطابق مصر میں اخوان المسلمون کی ناکامی کے بعد اب لوگ یہ یقین کرنے کو تیار دکھائی نہیں دیتے کہ اسلام پسندوں کی موجودگی میں کسی کثیرالجہتی معاشرے یا جمہوری آزادی کا حصول ممکن ہے۔‘

واضح رہے کہ اردن میں سن 1946ء میں اخوان المسلمون کو ایک چیرٹی تنظیم کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا، جس نے سن 1992ء میں اسلامک ایکشن فرنٹ کے نام سے اپنے سیاسی بازو کا آغاز کیا تھا۔ اس کی جانب سے کبھی اردن کو اسلامی ریاست بنانے کا مطالبہ سامنے نہیں آیا۔ گزشتہ انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کی وجہ سے اس تنظیم کی پارلیمان میں کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ اس تنظیم نے ناکافی سیاسی اصلاحات کو بنیاد بنا کر انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ تاہم الرنتاوی کے بقول اس تنظیم کی حمایت عوامی سطح پر خاصی موجود ہے اور حکومت بھی اسی وجہ سے اس تنظیم کو چار و ناچار برداشت کرنے پر مجبور ہے۔ تاہم اس پارٹی اور حکومت کے درمیان تعلقات خاصے کشیدہ ہیں۔

اسلامی گروہوں سے متعلق سیاسی ماہر حسن ابو ہنیه کے مطابق مصر میں حالیہ واقعات نے اردن میں اسلام پسندوں کو خاصا متاثر کیا ہے۔ ’مصر میں اخوان المسلمون کے اقتدار کے خاتمے سے اردن میں بھی یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ اب یہاں اسلام پسندوں کا اقتدار میں آنا خاصا مشکل ہو گا اور اس طرح اردن میں ان سے جان چھڑانا ممکن ہو جائے گی۔‘