1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’مجھے امید ہے کہ میرا تجربہ دوسرے متاثرین کی مدد کرے گا‘

19 جون 2020

امریکی بلاگر نے سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک پر عصمت دری کا الزام لگا کر پاکستان میں ایک سیاسی طوفان برپا کردیا ہے۔ ڈی ڈبلیو انٹرویو میں، وہ بتاتی ہیں کہ جنسی ہراسانی کے خلاف بولنا کیوں ضروری ہے۔

https://p.dw.com/p/3e2V8
Screenshot Cynthia D. Ritchie "Merry Christmas from Swat Valley, Pakistan"
تصویر: YouTube/ Cynthia D. Ritchie


ڈی ڈبلیو کے ساتھ انٹرویو میں، امریکی بلاگر سنتھیا رچی نے بتایا ہے کہ جنسی طور پر ہراساں کرنے کے خلاف بولنا کیوں ضروری ہے۔امریکی بلاگر نے سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک پر عصمت دری کا الزام لگا کر پاکستان میں ایک سیاسی طوفان برپا کردیا ہے۔ ڈی ڈبلیو انٹرویو میں، وہ بتاتی ہیں کہ جنسی ہراسانی کے خلاف بولنا کیوں ضروری ہے۔

سنتھیا رچی، جو سن 2010 میں پہلی بار پاکستان گئی تھیں اور کم و بیش وہاں رہائش پذیر رہیں۔ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر خود کو"امریکی فری لانس ڈائریکٹر، پروڈیوسر اور مصنف" کے طور پر متعارف کراتی ہیں۔رواں ماہ کے آغاز میں، رچی نے سابق پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی پر الزام لگایا تھا کہ وہ انہیں جنسی طور پر ہراساں کرتے رہے اور سابق وزیر داخلہ رحمان ملک نے سن 2011 میں ان کا ریپ کیا۔ دونوں سیاستدانوں کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی یعنی پی پی پی سے ہے، جس کی سربراہی میں سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے بھی کی تھی جو سن 2007 میں شہر راولپنڈی میں دہشت گردی کے ایک حملے میں ہلاک ہو گئی تھیں۔ ان الزامات سے قبل رچی نے اپنی ایک ٹویٹ میں بے نظیر بھٹو کو بھی نشانہ بنایا تھا۔ سابق وزراء نے رچی کے الزامات کی تردید کی ہے، لیکن امریکی بلاگر کا کہنا ہے کہ وہ عدالت میں اپنے دعووں کا دفاع کرنے کے لیے تیار ہیں۔ پاکستان میں جنسی طور پر ہراساں کرنا ایک ممنوعہ موضوع ہے۔ چونکہ رچی کے الزامات میں ایک مقبول سیاسی جماعت اور اس کے قائدین شامل ہیں، لہذا پاکستان میں بہت سارے لوگوں نے خاتون پر "در پردہ خفیہ مقاصد" کا الزام لگایا ہے۔ اس طرح عصمت دری کا الزام ایک سیاسی تنازعہ بن گیا ہے۔ جس نے ممکنہ #MeToo کے کیس کو ہلکا کر دیا ہے۔

ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں ، رچی نے وضاحت کی کہ اسے مبینہ جنسی ہراساں کرنے کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔
ڈی ڈبلیو: اس وقت آپ نے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف عصمت دری اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات سامنے لانے کا انتخاب کیوں کیا؟
سنتھیا ڈی رچی: کئی ہفتے پہلے میں نے اپنے فیس بک پیج پر اپنی کہانی سنانا شروع کی تھی۔ یہ بینظیر بھٹو کے متنازعہ ٹویٹ سے ایک ماہ قبل اور پیپلز پارٹی کے ممبروں کے ہاتھوں بدتمیزی کے بارے میں میرے دوسرے فیس بک لائیو ویڈیو سے کئی ہفتہ قبل کی بات ہے۔ پہلے ویڈیو میں، میں نے مختلف پارٹیوں کے ہاتھوں سالوں ہراساں ہونے کے معاملات پر تبادلہ خیال کیا تھا، لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات وہ تھی جس کا تعلق میرے بہن بھائیوں سے ہے۔ میرے بہن بھائیوں نے انتہائی مفصل معلومات ایک ایسے شخص تک پہنچائیں جس نے میرے والد کی پہلی شادی سے میرے رضاعی بھائی ہونے کا جھوٹا ڈھونگ رچایا۔ جس فیک یا جعلی فیس بک اکاؤنٹ کے ذریعہ اس شخص نے رابطہ قائم کیا اس اکاؤنٹ کا پتہ 'پی پی پی‘ اور پشتون تحفظ موومنٹ 'پی ٹی ایم‘ کو تھا جنہوں نے پھر ہماری ان ذاتی معلومات کو آن لائن شیئر کر دیا۔ میرا استحصال اور میرے ساتھ زیادتی تو ایک چیز تھی لیکن میری فیملی کا جہاں معاملہ آجائے وہاں ایک لکیر کھینچنا میرے لیے ضروری تھا۔


ڈی ڈبلیو: بہت سے لوگ ، جو اس تنازعے میں سے غیرجانبار ہیں، کہتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو کی ازدواجی زندگی سے متعلق آپ کے تبصرے نامناسب ہیں۔ کیا آپ اس بات سے اتفاق کرتی ہیں؟

سنتھیا ڈی رچی: نامناسب کی اصطلاح کی تعریف کو نسبتاً دیکھا جانا چاہیے۔ میرے ٹویٹ کے الفاظ یہ تھے کہ'' جو کچھ مجھے پی پی پی کے سینیئر وزرا نے بتایا تھا یہ اس کی گونج یا باز گشت ہے۔ یہ اراکین پارلیمنٹ، جن میں سابق وزیر داخلہ رحمان ملک بھی شامل ہیں، عصمت دری کی ثقافت اور اس سے بھی زیادہ، دوسری عورتوں کے ساتھ زیادتی کا حکم دینے والی عورت کے خیال سے بہت زیادہ متاثر نظر آتے ہیں۔ میری تنقید عصمت دری کی ثقافت پر تھی، اور کسی بھی لحاظ سے میرا اشارہ بے نظیر بھٹو کی طرف نہیں تھا۔‘‘


ڈی ڈبلیو: پیپلز پارٹی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ چونکہ آپ فوج اور خان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف پی ٹی آئی کے قریب ہیں ، لہذا آپ عصمت دری کے الزامات حزب اختلاف کو تکلیف اور نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ آپ ان الزامات پر کیسا ردعمل ظاہر کریں گی؟

سنتھیا ڈی رچی: پیپلز پارٹی کا یہ کہنا فطری ہے۔ پیپلز پارٹی اپنی موت آپ مر رہی ہے اس لیے اسے اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے بہت جد و جہد کرنا پڑ رہی ہے، اس کوشش میں وہ کسی بھی بہانے کو استعمال کرے گی۔ ان کا "جمہوریت نواز اور خواتین کے حقوق" کے حامی ہونے کا ماضی کا امیج اُس بے شرمی کے سبب بے نقاب ہوا ہے۔ حقیت میں یہ ایسا ہی تھا اور ابھی بھی ایسا ہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا۔ اس جماعت کو پرانے محافظوں کی جگہ پاکستان کی ترقی میں حقیقی دلچسپی رکھنے والے نئے قیادت کو سامنے لانا چاہیے۔ اس تبدیلی کی ضرورت ہے۔

Screenshot Cynthia D. Ritchie Facebook live
سنتھیا رچی، سن 2010 میں پہلی بار پاکستان گئی تھیں۔تصویر: Facebook/Cynthia Dawn Ritchie

ڈی ڈبلیو: آپ ایک دہائی سے پاکستان میں مقیم ہیں۔ ملک میں جنسی طور پر ہراساں کرنے کے معاملے کو آپ کس نظر سے دیکھتی ہیں؟

سنتھیا ڈی رچی: میں سمجھ گئی ہوں کہ کیوں کچھ خواتین مردوں کی گھورنے والی نگاہوں سے خود کو بچانے کے لیے حفاظتی کور کے طور پر برقعہ پہننے کا انتخاب کرتی ہیں۔ یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ عورتیں اور مرد دونوں گھورتے ہیں، لیکن مرد زیادہ واضح اور محسوس طریقے سے گھورتے ہیں۔ اسلام میں، مردوں کو عورت کے سامنے اپنی نگاہیں نیچی کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے، لیکن ایسا اکثر نہیں کیا جاتا ہے۔ لیکن ہراساں کرنے کا مسئلہ، آن لائن اور آف لائن دونوں ہی زیادہ تر تعلیم یافتہ اشرافیہ طبقے میں پایا جاتا ہے۔
ڈی ڈبلیو: کیا آپ نے کبھی حکمراں جماعت پی ٹی آئی کے اراکین کی طرف سے ہراساں ہونے کا کوئی تجربہ کیا؟
سنتھیا ڈی رچی: مجھے ماضی میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی طرف سے ہراساں کیے جانے کے کچھ ہلکے واقعات کا سامنا کرنا پڑا ہے، تاہم ان کا مقابلہ ان پر تشدد، جارحانہ حملوں سے قطعاً نہیں کیا جا سکتا جن کا تجربہ مجھے پیپلز پارٹی سے وابستہ مردوں کے ساتھ ہوا۔

ڈی ڈبلیو: پاکستان میں ایلیٹ حلقوں میں خواتین کو کس طرح ہراساں کیا جاتا ہے، اور آپ نے کیا دیکھا ہے؟

سنتھیا ڈی رچی: میں نے نام نہاد اشرافیہ کے حلقوں میں بہت سارے اچھے لوگوں سے ملاقات کی ہے۔ میں نے دونوں جنسوں کو بھی اپنے نوکروں، نوکروں کے بچوں کے ساتھ بدسلوکی اور بازاروں میں غریب لوگوں کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ پاکستان میں، بدسلوکی پر اتنی کھلی بحث نہیں کی جاتی ہے جتنی کہ مغرب میں ہے۔ جب تک کہ کوئی عیش و آرام کی طرز زندگی کو برقرار رکھتا ہے، بدسلوکی اس کے لیے قابل قبول ہوتی ہے۔

ڈی ڈبلیو: کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ عدالت میں اپنے الزامات ثابت کرسکتی ہیں؟
سنتھیا ڈی رچی: میں نے پُراعتماد رہنے کا انتخاب کیا ہے۔ اگر مجھے عدالتوں سے انصاف نہیں ملا تو ، میں اسے برطانیہ اور امریکا لے جاؤں گی جہاں پی پی پی کے کارکنان آن لائن اور دیگر طریقوں سے مجھے ہراساں کرتے رہتے ہیں۔ اور میں اپنی آن لائن مہموں کو ضرورت کے مطابق جاری رکھوں گی۔

ڈی ڈبلیو: عدالت نے آپ کے خلاف پہلی انفارمیشن رپورٹ ایف آئی آر درج کرائی ہے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو گرفتار کرلیا جائے گا؟

سنتھیا ڈی رچی: معزز عدالت میں اس کیس کو غلط انداز میں پیش کیا گیا اور اپنے دائرہ اختیار سے باہر کام کیا۔ سائبر جرائم کی تحقیقات کے ذمہ دار حکام نے کہا ہے کہ میں نے جرم نہیں کیا ہے۔ مزید یہ کہ، انگریزی قانون میں، کسی مردہ شخص کی بدنامی نہیں ہوسکتی ہے۔ اگر، اتفاقی طور پر کوئی جائز ہتک عزت کا معاملہ ہوتا ہے تو، سرپرست یا ورثاء کو لازمی طور پر عدالت کے سامنے شکایت درج کروانی چاہیے- اس معاملے میں بے نظیر بھٹو کے بچوں نے ایسا نہیں کیا۔ میں آخر کار اپنی کہانی سنانے کو تیار ہوں اور اگر اس سے کچھ اور نہیں حاصل ہوتا تو، مجھے امید ہے کہ میرے تجربات بدسلوکی کے شکار دیگر متاثرین کو یہ جاننے میں مدد دیں گے کہ وہ تنہا نہیں ہیں۔


 

انٹرویو: ہارون جنجوعہ ڈی ڈبلیو اسلام آباد/ ک م/ ع ح