متعدد ممالک سے روسی سفارت کاروں کی بے دخلی
26 مارچ 2018جرمن وزارت خارجہ کی جانب سے آج پیر کو چار روسی سفارت کاروں کو ملک چھوڑنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔ ایک بیان میں کہا گیا سابق روسی جاسوس سیرگئی سکرپل اور ان کی بیٹی پر زہریلے گیس کے حملے کی گھتی سلجھانے میں روس تفتیشی عمل میں تعاون نہیں کر رہا اور اسی وجہ سے برلن حکومت نے لندن کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
یورپی کونسل کے سربراہ ڈونلڈ ٹسک کے مطابق یورپی یونین کی جانب سے مشترکہ لائحہ عمل طے کرتے ہوئے آئندہ دنوں میں مزید روسی سفارت کاروں کے بے دخل کیا جا سکتا ہے۔ برطانیہ سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے جن ممالک نے یہ اقدامات اٹھائے ہیں، ان میں پولینڈ، فرانس، ہالینڈ، اٹلی، ڈنمارک، سویڈن، ایسٹونیا، لیٹویا، فن لینڈ، رومانیہ، چیک ریپبلک اور لتھوانیا بھی شامل ہیں۔
دوسری جانب روسی سفارت کاروں کو بے دخل کرنے والوں میں یوکرائن اور کینیڈا بھی شامل ہیں۔ ساتھ ہی امریکا نے سیاٹل میں روسی قونصل خانے کو بند کرنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے ساٹھ سفارت کاروں کو ملک سے نکل جانے کے احکامات دیے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کے ایک سینیئر اہلکار کے مطابق ساٹھ روسی جاسوس سفارت کاروں کا روپ دھار کر امریکا میں موجود تھے اور ان میں کچھ اقوام متحدہ میں بھی کام کر رہے تھے۔ اس اہلکار نے مزید بتایا کہ اس طرح ماسکو حکام کو یہ پیغام دینا ہے کہ امریکا میں ’نا قابل یقین حد تک‘ تعداد میں جاسوسوں کی موجودگی برداشت نہیں کی جائے گی۔
اتحادی ممالک نے روس کو ذمہ دار قرار دے دیا
روس دوہرے جاسوس پر حملے میں ملوث نہیں
روس نے تیئس برطانوی سفارت کاروں کو بے دخل کرتے ہوئے سینٹ پیٹرز برگ میں برطانوی قونصل خانے کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔ اسی کے علاوہ امریکی ڈپلومیٹک مشن کے بھی ساٹھ ملازمین کو جلد ہی روس بدر کر دیا جائے گا۔ روسی وزارت خارجہ کے مطابق، ’’ اس کا جواب بالکل متوازن انداز میں دیا جائے گا۔ اس پر ابھی کام ہو رہا ہے اور اگلے دنوں ہر ملک کو اس کے حساب سے جواب دیا جائے گا‘‘۔
چھیاسٹھ سالہ سابق روسی جاسوس سیر گئی سکرپل اور ان کی 33 سالہ بیٹی چار مارچ کو جنوبی انگلینڈ کے شہر سیلسبری میں بے ہوشی کی حالت میں ملے تھے۔ لندن کا الزام ہے کہ ان دونوں پر زہریلی گیس کے حملے میں روس ملوث ہے۔ ان دونوں کی حالت بدستور نازک ہے۔ روس ان الزامات کو مسترد کرتا ہے۔