1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مارے گئے مبینہ کشمیری شدت پسند بےگناہ تھے، اہل خانہ کا دعویٰ

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو نیوز، نئی دہلی
31 دسمبر 2020

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سکیورٹی فورسز نے تین مبینہ شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا جبکہ ہلاک شدگان کے اہل خانہ کے مطابق ان تینوں نوجوانوں کا شدت پسندی سے کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ بےگناہ تھے۔

https://p.dw.com/p/3nPA0
Indien Srinagar Sopore | Tote nach Rebellenangriff
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/N. Kachroo

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سکیورٹی فورسز نے بدھ تیس دسمبر کے روز سری نگر کے مضافات میں تین مبینہ کشمیری شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایک ’بڑے دہشت گردانہ حملے کا منصوبہ‘ بنا رہے تھے۔ لیکن جیسے ہی ہلاک شدگان کی تصویریں میڈیا میں نظر آئیں، تو ان کے اہل خانہ نے سکیورٹی فورسز پر ’جعلی تصادم‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ان نوجوانوں کا شدت پسندی سے کوئی تعلق نہیں تھا اور بھارتی فورسز نے ’بے گناہوں کا قتل‘ کیا ہے۔

بھارتی سکیورٹی فورسز نے سری نگر سے بارامولہ جانے والی شاہراہ پر جن تین ’شدت پسندوں‘ کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا، ان میں سے ایک گیارہویں جماعت کا طالب علم تھا۔ ان تینوں نوجوانوں کی شناخت شوپیاں کے زبیر احمد،  پلوامہ کے اعجاز احمد غنی اور اطہر مشتاق کے طور پر کی گئی تھی۔

اعجاز احمد غنی ایک کشمیری پولیس افسر کے بیٹے تھے جو اس وقت ضلع گاندر بل میں تعینات ہیں۔ کشمیر پولیس کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی بھارتی فوج نے کی اور اس میں مقامی پولیس شامل نہیں تھی۔ کشمیر کے آئی جی پولیس وجے کمار کا کہنا ہے کہ اس معاملے کی تفتیش جاری ہے اور جلد ہی حقائق واضح ہو جائیں گے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ وہ ’مسلح مقابلے‘ کے بعد جائے وقوعہ پر پہنچی تھی۔ تاہم اس نے اپنے ایک بیان میں یہ بھی کہا کہ اگرچہ پولیس کی اپنی تیار کردہ شدت پسندوں کی فہرست میں ان لڑکوں کے نام شامل نہیں تھے تاہم وہ سب مبینہ دہشت گرد تھے۔ ’’اگرچہ ہلاک ہونے والے تینوں شدت پسندوں کے نام ہماری فہرست میں نہیں تھے تاہم ان میں سے دو دہشت گردوں کے لیے کام کیا کرتے تھے۔‘‘

بھارتی فوج کا دعویٰ ہے کہ مارے جانے والے افراد ایک ’بڑی دہشت گردانہ کارروائی کا منصوبہ‘ بنا رہے تھے۔ سری نگر میں ایک سینیئر فوجی افسر میجر جنرل ایچ ایس ساہی نے میڈیا سے بات چيت کرتے ہوئے کہا، ’’ہمیں ایسی اطلاعات مل رہی تھیں کہ شدت پسند بڑی کارروائی کی تیاری کر رہے تھے۔ گزشتہ روز ہمیں اس بارے میں پتہ چلا تو ہم نے اس عمارت کا محاصرہ کر لیا اور ان افراد سے ہتھیار پھینک دینے کے لیے کیا۔ لیکن ان میں ایک شدت پسند نے فائرنگ شروع کر دی اور سکیورٹی فورسز پر دستی بم بھی پھینکے۔‘‘

کارگل وار کی کہانی، دراس کے مقامی باشندوں کی زبانی

پھر لیکن جیسے ہی ان لڑکوں کی تصاویر میڈیا پر نشر ہوئیں، تو سب سے پہلے پلوامہ کی ایک فیملی سری نگر پہنچی اور پولیس ہیڈ کوارٹر  کے باہر احتجاج کرتے ہوئے ’بےگناہوں کو قتل کرنے‘ کا الزام عائد کیا۔ مارے جانے والوں میں سے ایک نوجوان اعجاز احمد غنی کے دادا بشیر احمد غنی نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ منگل کی صبح ان کے پوتے نے ان کے ساتھ چائے پی تھی اور پھر وہ پڑھائی کے لیے باہر چلا گیا تھا۔ بشیر احمد غنی نے کہا، ’’اعجاز غنی کو کار سے گھیسٹ کر باہر نکالا گیا اور پھر گولی مار دی گئی۔ آخر میرے بچے کا قتل کیوں کیا گيا؟ اس کا قصور کیا تھا؟ ہمیں ان سوالوں کے جواب چاہییں۔‘‘

اس کے فوراﹰ بعد شوپیاں کے زبیر احمد کے اہل خانہ بھی پولیس کنٹرول روم کے باہر جمع ہو گئے اور انہوں نے بھی بھارتی فورسز پر بےگناہ نوجوانوں کو قتل کرنے کا الزام عائد کیا۔ وہاں موجود ایک خاتون نے روتے ہوئے کہا، ’’میرے بچے کی لاش میرے حوالے کی جائے۔ مجھے اور کچھ نہیں چاہیے۔ صرف اس کی لاش۔‘‘

کشمیر میں بھارتی فوج کورونا وائرس کی وبا کا حوالہ دے کر مارے جانے والے مبینہ شدت پسندوں کی لاشیں ان کے لواحقین کے حوالے کرنے کے بجائے انہیں خود ہی دور دراز کے علاقوں میں دفن کر دیتی ہے۔ فوج کے مطابق اس سے شدت پسندی کو قابو کرنے میں بھی مدد ملی ہے۔ پولیس نے اپنے ایک دوسرے بیان میں ہلاک شدگان کے پسماندگان کے عائد کردہ الزامات رد کرتے ہوئے کہا کہ عموماﹰ لواحقین کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کے بچے گھروں سے باہر کس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔

کشمیر میں مبینہ ’جعلی تصادم‘ کا یہ واقعہ ایک ایسے وقت پر پیش آیا ہے، جب ابھی چند روز قبل ہی تین دیگر نوجوانوں کی ایک جعلی مسلح تصادم میں ہلاکت کے باعث پولیس نے ایک بھارتی فوجی افسر اور دو مقامی باشندوں پر فرد جرم عائد کر دی تھی۔ بھارتی فوج نے بھی اب یہ بات تسلیم کر لی ہے کہ جولائی میں عمشی پورہ میں فوج نے جن تین لڑکوں کو ہلاک کیا تھا، وہ تینوں ہی بے گناہ مزدور تھے۔ اس کیس میں بھی ہلاک شدگان کی شناخت تلف کرنے کے بعد ان کی لاشوں پر عسکریت پسندوں کے پاس موجود ہتھیاروں اور اشیاء جیسا ساز و سامان اور اسلحہ رکھ دیے گئے تھے۔

کشمیر: کیا ایل او سی پر بسے گاؤں کے حالات بدل جائیں گے؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں