1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لبنان میں شامی مہاجرین کی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز

6 نومبر 2012

لبنان میں شامی مہاجرین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ان میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ بین الاقوامی اور لبنانی امدادی تنظیمیں ان مہاجرین کو مدد کی پیشکش کر تو رہی ہیں لیکن یہ مدد تمام مہاجرین تک نہیں پہنچ رہی۔

https://p.dw.com/p/16dmY
تصویر: Reuters

احمد کی عمر سات سال ہے اور یہ بچہ ہر روز دوپہر کے وقت جنوبی بیروت میں حارة حریک کے علاقے میں قائم عمل فاؤنڈیشن کے سماجی مرکز میں جاتا ہے۔ عمل فاؤنڈیشن ایک ایسی غیر سرکاری لبنانی تنظیم ہے جس نے پورے لبنان میں صحت اور تعلیم کے مراکز قائم کر رکھے ہیں۔ حارة حریک کے سوشل سینٹر میں یہ تنظیم شامی مہاجرین کو مدد فراہم کرتی ہے۔

احمد ایک شرمیلا سا شامی مہاجر بچہ ہے جس کا آبائی گھر مشرقی شام کے شہر عامُودا میں تھا۔ وہ چند ماہ قبل اپنے اہل خانہ کے ہمراہ اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہو گیا تھا۔ اب وہ لبنانی دارالحکومت میں رہتا ہے۔

Syrische Flüchtlinge in Libanon
لبنان پہنچنے والے کئی شامی مہاجرین کو فوری طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہےتصویر: Don Duncan

احمد کا کہنا ہے، ’’میں یہاں عربی، انگریزی اور ریاضی کی تعلیم حاصل کرتا ہوں۔ میں دوسری جماعت میں ہوں۔‘‘

دن کے وقت احمد لبنان کے ایک سرکاری اسکول میں تعلیم حاصل کرتا ہے۔ لیکن مختلف مضامین میں اس کی تعلیمی کارکردگی اس کے ہم عمر لبنانی بچوں کی کارکردگی جیسی نہیں ہے۔ اس کے لیے کوئی غیر ملکی زبان سیکھنا بھی ایک نئی بات ہے۔ لبنان میں بہت سے دیگر شامی مہاجر بچوں کی حالت بھی ایسی ہی ہے۔

حارة حریک میں عمل فاؤنڈیشن کے سماجی مرکز میں چار اور بارہ برس تک کی عمر کے کُل تیس کے قریب ایسے شامی بچوں کی مدد کی جاتی ہے۔ ان کی تعلیم کے اخراجات اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین UNHCR ادا کرتا ہے۔

ایمان الخطیب ایک ایسی لبنانی خاتون سماجی کارکن ہیں جو عمل فاؤنڈیشن کے لیے کام کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’شروع میں ہماری پیشکش پر رد عمل کچھ کم تھا۔ اب بیروت کے پورے شہر اور مضافاتی علاقوں سے زیادہ سے زیادہ شامی مہاجر بچے یہاں آتے ہیں۔ ہمارے ہاں آنے والے بچوں میں سے کئی نفسیاتی مسائل کا شکار بھی ہوتے ہیں۔ انہیں ذہنی اور جذباتی دھچکے کے اثرات کا سامنا ہوتا ہے۔ وہ اپنے گھروں سے نکلنے پر مجبور ہونے کے بعد یہاں تک پہنچے ہیں۔ وہ مجبور ہیں کہ اس جگہ کو اپنے گھر کے طور پر قبول کریں۔ انہیں ان سب حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے وقت چاہیے۔‘‘

Syrische Flüchtlinge im Libanon
بیروت کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ایک شامی مہاجرتصویر: Don Duncan

شامی مہاجر بچوں کا لبنانی تعلیمی نظام میں انضمام کئی نابالغ ذہنوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس سال جون کے مہینے سے اب تک لبنان میں شامی مہاجرین کی تعداد بڑھ کر تین گنا ہو چکی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر لبنان کے شمال اور مشرق میں رہائش پذیر ہیں۔ لیکن اب بیروت اور جنوبی لبنان پہنچنے والے شامی مہاجرین کی تعداد بھی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔

نومبر کے شروع میں اقوام متحدہ کے مہاجرین کے امدادی ادارے UNHCR نے بتایا تھا کہ تب تک لبنان میں شام کے رجسٹرڈ مہاجرین کی تعداد 77 ہزار سے تجاوز کر چکی تھی۔ اس کے علاوہ 30 ہزار سے زائد شامی مہاجرین ایسے ہیں جو لبنان ہی میں ابھی اپنی رجسٹریشن کا انتظار کر رہے ہیں۔

یو این ایچ سی آر کا اندازہ ہے کہ اس سال کے آخر تک مزید قریب 20 ہزار شامی مہاجرین لبنان پہنچ جائیں گے۔

M. Naggar, mm / ai