لبنان میں بم دھماکے: درجنوں ہلاک، سینکڑوں زخمی
23 اگست 2013طرابلس سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق دونوں بم دھماکوں میں محض چند ہی منٹ کا فرق تھا۔ ان میں سے پہلا دھماکا عنقریب اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے والے وزير اعظم نجیب میقاتی کے گھر کے قريب ہوا۔ دھماکے کے فوری بعد میقاتی کے دفتر کے ایک اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اس دھماکے کے وقت وزیر اعظم میقاتی طرابلس میں نہیں تھے۔
طرابلس کا بندرگاہی شہر جسے ٹریپولی بھی کہا جاتا ہے، لبنان کا سنی مسلمانوں کی اکثریتی آبادی والا شہر ہے جو ماضی میں عام طور پر فرقہ ورانہ تصادم اور خونریز واقعات کی زد میں آنے سے بچا رہتا تھا۔ وہاں ہونے والا دوسرا بم دھماکا شہر کی بندرگاہ کے قریب ہوا۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی نے سکیورٹی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ دوسرا دھماکا پولیس کے سابق سربراہ اشرف ریفی کی رہائش گاہ کے قریب ہوا۔
ان دھماکوں کے بعد لبنانی ٹیلی وژن چینلز نے دھماکوں کی جگہوں سے جو مناظر براہ راست نشر کیے، ان میں ایسی کئی عمارات دیکھی جا سکتی تھیں، جن کے سامنے کے حصے بہت طاقتور بم پھٹنے کے نتیجے میں مکمل طور پر تباہ ہو گئے تھے۔ اس کے علاوہ ان ویڈیوز میں جلتی ہوئی کاروں اور ہر طرف افراتفری کے علاوہ ایسے عام شہری اور امدادی کارکن بھی دیکھے جا سکتے تھے، جو ان دھماکوں میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کو وہاں سے نکالنے کی کوششیں کر رہے تھے۔
لبنانی شہر طرابلس میں آج کے یہ دھماکے ملکی دارالحکومت بیروت میں قریب ایک ہفتہ قبل ہونے والے اس تباہ کن کار بم دھماکے کے بعد ہوئے ہیں، جس میں کم از کم 27 افراد مارے گئے تھے۔ بیروت شہر میں یہ کار بم حملہ لبنان کی ایران نواز شیعہ تحریک حزب اللہ کے زیر اثر اس علاقے میں کیا گیا تھا جسے اس تحریک کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔
حزب اللہ کے جنگجو ہمسایہ ملک شام کی خانہ جنگی میں صدر بشار الاسد کی حامی فوجوں کے ساتھ مل کر باغیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں اور ان کا واضح ہدف شامی اپوزیشن کے مسلح جنگجو ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس لبنانی سنیوں کی جذباتی ہمدردیاں شامی باغیوں کے ساتھ ہیں۔
اس تناظر میں بحیرہء روم کے کنارے واقع شہر طرابلس میں ماضی قریب میں بھی کئی مرتبہ مقامی شیعہ اور سنی آبادی کے سخت گیر خیالات رکھنے والے افراد کے مابین مسلح تصادم ہو چکا ہے۔ ان واقعات میں ایک طرف مذہبی طور پر علوی عقیدے کے وہ مسلح افراد ہوتے تھے جو شامی صدر بشار الاسد کے حامی ہیں اور دوسری طرف وہ مقامی مسلح سنی گروپ جو شامی اپوزیشن کی حمایت کرتے ہیں۔
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ طرابلس میں دھماکوں میں سے ایک شہر کے الظاہریہ نامی علاقے میں اس وقت ہوا ، جب سنی اکثریتی آبادی کے بہت سے افراد مقامی تقویٰ مسجد میں جمعے کی نماز کے بعد وہاں سے باہر آ رہے تھے۔ دوسرا بم دھماکا شہر کے المنیٰ نامی علاقے میں کیا گیا جب بہت سے سنی نمازی سلام مسجد نامی عبادت گاہ میں نماز جمعہ کے بعد واپس جا رہے تھے۔