لبنان: حزب اللہ کی حامی حکومت اپوزيشن کے دباؤ ميں
22 اکتوبر 2012لبنانی انٹيليجنس محکمے کے سربراہ وِسام الحسن کو پچھلے جمعے کے دن ايک بم حملے ميں ہلاک کرديا گيا۔ دھماکے ميں مزيد کئی افراد ہلاک اور درجنوں زخمی بھی ہوئے۔ ابھی تک کسی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہيں کی ہے ليکن بہت سے لبنانی يہ سمجھتے ہيں کہ اس ميں ہمسايہ ملک شام کی بشار الاسد حکومت کا ہاتھ ہے۔
اس شبے کی وجوہات موجود ہيں۔ خفيہ سروس کے سربراہ وسام الحسن نے لبنان کے ايک سابق وزير اطلاعات کے خلاف تفتيش کی تھی جو لبنان ميں شامی حکومت کے قریب ترين ساتھيوں ميں شمار ہوتے ہيں۔ سابق وزير اطلاعات کو ڈيڑھ سال قبل دہشت گردانہ حملوں کے منصوبے بنانے کے شبے ميں گرفتار کر ليا گيا تھا۔ اس کے علاوہ وسام الحسن 2005 ميں ايک بم حملے ميں ہلاک ہونے والے سابق وزير اعظم رفيق الحريری کے قريبی معتمد تھے۔ حريری کے قتل ميں بھی شام ہی کو ملوث سمجھا جاتا ہے۔
وسام الحسن کی آخری رسومات ميں شرکت کرنے والے وسام اور رفيق حريری کے نام ايک ساتھ لے رہے تھے۔ سات سال قبل رفيق حريری کے قتل کے بعد شامی لبنانی تعلقات يکسر تبديل ہو گئے تھے۔ لبنان کی محافظ طاقت سمجھے جانے والے شام کی افواج کو لبنان سے نکلنا پڑا تھا۔ ليکن شامی خفيہ اہلکار لبنان ميں اب بھی موجود ہيں۔ مظاہرے ميں شريک ايک خاتون نے کہا کہ ہم وزير اعظم ميقاتی کے فوری استعفے کا مطالبہ کرتے ہيں۔
کہا جاتا ہے کہ ميقاتی نے استعفٰی پيش کر ديا تھا ليکن صدر مشيل سليمان نے اسے منظور نہيں کيا ہے۔ ميقاتی حزب اللہ کی مدد سے حکومتی سربراہ بنے ہيں۔ شيعہ حزب اللہ لبنان ميں علوی شيعہ شامی صدر اسد کی زبردست حامی جماعت ہے اور وہ فعال طور پر شامی حکومت کے ساتھ مل کر باغيوں سے جنگ بھی کر رہی ہے۔
لبنان شيعہ اور سنی بنيادوں پر منقسم ہے: وسام الحسن اور رفيق حريری دونوں سنی تھے۔
B. Blaschke, sas / M. Müller, ij