1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لاہور کے نواح میں نین سکھ، گلاب نگر

وقار مصطفٰے، لاہور5 جولائی 2015

پاکستان کے تاریخی شہر لاہور کے مضافات میں راوی کے دوسرے کنارے پر اگتے گلاب کے کھیتوں اور پھلوں کے باغات کو کنکریٹ کا عفریت نگل رہا ہے۔ ایک قصبہ ایسا ہے جو اس رجحان کے خلاف کسی نہ کسی طرح اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔

https://p.dw.com/p/1Ft2L
Rosenzucht in Nainsukh Pakistan
گل قند اور عرق گلاب کی تیاری کے لیے ان پھولوں کا استعمال تب کیا جاتا ہے جب بہار میں زیادہ پیداوار کے باعث ان کی قمیت کم ہو جاتی ہےتصویر: DW/Rana Sajid Hussain

سورج ابھرنے کے ساتھ ساتھ شہر لاہورسے مغرب کی جانب دریائے راوی کے اس پار شیخوپورہ سے ملاتی اس سڑک پر لیچی بیچتے ٹھیلوں کے پاس سے گزر کر چھ کلومیٹر دور بڑھتی گاڑیوں اور بڑھتے شور اور دھوئیں کوچند لمحوں کے لیے بھول کر بھینی بھینی خوشبوکا پیچھا کیا جائے تو ایک مختلف منظر کھلتا ہے۔

یہاں جستی چھت تلے گلاب کے پھول سرخ ڈھیریوں اور گٹھوں میں پڑے ہیں۔ ارد گرد کھڑے لوگ بڑھ چڑھ کر ان پھولوں کی قیمت لگا رہے ہیں۔ سفید کپڑا سر پر اوڑھے ادھیڑ عمر محمد الیاس آخری بولی کا اعلان کرتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے کچھ پھول اٹھا کر ایک دوسرے شخص کی اس کے گلے سے لٹکتی جھولی میں ڈال رہے ہیں۔

جھولی میں ڈالے جانے والے یہ پھول آڑھت کہلاتے ہیں۔ آپ اسے کمیشن کہہ لیں۔ ان پھولوں کو بھی ہم ڈھیری مکمل ہونے پر بیچ دیتے ہیں، یہی ہماری آڑھت ہوتی ہے، یہ بتایا رحمت علی نے جو یہ آڑھت (ایجنسی کو بھی عرف عام میں آڑھت ہی کہا جاتا ہے) چلاتے ہیں۔

پچاس برس سے اوپر کے لگتے رحمت علی سے ان کی عمر تو نہ پوچھی جا سکی مگر ان کا کہنا تھا کہ ان کے باپ دادا بھی یہیں لاہور اور شیخوپورہ کے اضلاع کے سنگم پر واقع قصبہ نین سکھ میں پھول اگاتے اور اسی منڈی میں بیچتے اور آڑھت چلاتے تھے۔

رحمت علی چھ ایکڑ رقبے پر پھول کاشت کرتے ہیں۔ ان کے مطابق پھول اب بھی بہت سے دوسرے شہروں میں جاتے ہیں مگر تب تو دور دراز کے علاقوں میں یہیں سے پھول لے جائے جاتے تھے۔

Rosenzucht in Nainsukh Pakistan
نین سکھ سے گلاب کے یہ پھول فروخت کے لیے لاہور اور دیگر شہروں میں لے جائے جاتے ہیںتصویر: DW/W. Mustafa

ان کی اس بات کی توثیق قصہ گو شاعر اور تاریخ کی کتابوں کے لکھاری اثر انصاری نے بھی کی، جن کے دادا برطانوی نوآبادیاتی دور میں محکمہ ڈاک کے ملازم تھے اور اسی علاقے میں کام کرتے تھے۔

ان کے مطابق گلاب خوشی اور غم ہر موقع پر استعمال ہوتا رہا ہے۔ شادیوں میں تو گلاب استعمال ہوتا ہی ہے۔ رمضان اور محرم میں لوگ اپنے پیاروں کی قبروں پر ڈالنے کے پھول خریدتے ہیں، اس لیے پھولوں کا ریٹ بڑھ جاتا ہے۔ آج کا ریٹ اسی روپے ۔۔۔ ابھی رحمت علی یہ کہہ ہی رہے ہیں کہ اچانک ایک جانب دیکھتے ہوئے جہاں بولی ہو رہی ہے، وہ پکارتے ہیں، ’’لو جی، ریٹ سو روپے ہوگیا!‘‘

سٹاک ایکسچینج کی طرح رحمت علی فون پر کسی کو پھولوں کا آج کا ریٹ بتا اور کسی سے پوچھ رہے ہیں۔

بہت پرانا قصبہ ہے یہ نین سکھ، کہا اثر انصاری نے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ مغلوں کا پتن تھا، کابل سے، قندھار سے امراء خراج لے کر آتے ہوئے یہیں اترتے۔ کبھی دریا کنارے ہونے کی وجہ سے سرکنڈوں سے بھرا یہ علاقہ مجرموں کی پناہ گاہ بنا۔ یہاں پاکستان بننے سے پہلے نین ذات کے لوگ زیادہ تعداد میں آباد تھے، یوں اس کا نام نین سکھ ٹھہرا۔ یہاں چار میلے ہوتے ہیں۔ یہاں کچھ باغ تھے جنہیں مالیوں کے باغ کہا جاتا تھا، لیچی اور لوکاٹ اگتے تھے، سڑکوں اور آبادی میں توسیع کی نذر ہوئے۔

محمد صدیق انیس سو ستائیس میں نین سکھ ہی میں پیدا ہوئے۔ یہیں پٹواری رہے، سو یہاں کا زیادہ علم رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق یہاں پہلے زرخیز زمین تھی۔ لیچی، امرود، لوکاٹ کے باغ تھے۔ یہ باغات تو معلوم ہوا بہت پرانے تھے۔گلاب یہاں پر کچھ ستر برس پہلے لاہور سے آئے، جنہیں کسانوں نےٹھیکے پر لی گئی زمین پر کاشت کیا۔

Rosenzucht in Nainsukh Pakistan
گلاب کے پودوں کی حفاظت کے لیے ان پر کیڑے مار ادویات کا سپرے بھی کیا جاتا ہےتصویر: DW/W. Mustafa

پینتالیس سالہ شبیر احمد جو اب پانچ ایکڑ رقبے پر گلاب اگاتے ہیں، کا کہنا ہے کہ ان کسانوں کا منافع دیکھ کر یہاں کے لوگوں نے بھی پھولوں کی کاشت شروع کر دی۔

انصاری کے مطابق یہاں ہر قسم کے گلاب کاشت کیے جاتے رہے ہیں۔ لال، گلابی، سفید اور پیلا گلاب جو چار چار، پانچ پانچ دن تک خراب نہیں ہوتا ۔

سردیوں میں کاشت، تین مہینے میں تیارہونے والی گلاب کی فصل کو گوڈی، کھاد، سپرے کی ضرورت ہوتی ہے ۔زیادہ لوگ ٹھیکے پر زمین لے کرکاشت کرتے ہیں۔

شبیر احمد جو نرسری بھی چلاتے ہیں، کہتے ہیں کہ گلاب قلموں کی شکل میں قطاروں میں کاشت کیا جاتا ہے، قطاروں کا درمیانی فاصلہ چھ سے سات فٹ ہوتا ہے۔ بہت زیادہ پھیلنے والا یہ پودا تین ماہ میں تیار ہو جاتا ہے۔ زیادہ پھیل جائے تو نیچے سے کاٹ دیا جاتا ہے، نئے پودے کی طرح پھر سے بڑھ جاتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ پھول گرمیوں میں رات کے وقت اوس پڑنے سے اور سردیوں میں دھوپ سے کھلتے ہیں۔ روزانہ سورج نکلنے سے پہلے توڑے جاتے ہیں۔ پندرہ بیس روزپھولوں کا وقفہ بھی رہتا ہے۔منڈی لے جائے جاتے ہیں۔ کم یا زیادہ پندرہ سو سے دو ہزار فی ایکڑ آمدن ہو جاتی ہے۔

رحمت علی اور دیگر بہت سے افراد گلاب کے پھولوں سے عرق کشید کرتے اور گل قند بناتے ہیں، جن کا طبیب مختلف بیماریوں میں مریضوں کو استعمال کا مشورہ دیتے ہیں۔یہ اشیاء بھی ملک کے دیگر علاقوں میں بھجوائی جاتی ہیں۔

Rosenzucht in Nainsukh Pakistan
گل قند بنانے سے پہلے گلاب کی پتیوں کو سکھایا جاتا ہےتصویر: DW/Rana Sajid Hussain

مگر زیادہ تر عرق اور گل قند ان دنوں میں بنتے ہیں جب گلاب کی قیمت پندرہ بیس روپے کلو ہو جاتی ہے۔ اور ایسا اکثر بہار میں ہوتا ہے جب پھول بہتات میں ہوتے ہیں۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ اصل گلاب دیسی گلاب ہے۔ جو بہت کم ہوگیا ہے۔ اگر ملتا ہے تو آج کے نرخ کے مطابق پانچ سو روپے فی کلو گرام۔ اسی کا عطر بنتا تھا، پُر اثر عرق اور گل قند بھی۔ اب تو اسی گلاب سے کام چلایا جاتا ہے، تاثیر بھی تو ویسی ہی ہوگی نا!

انصاری کا کہنا ہے کہ نین سکھ کے علاقے میں دریا کے قریب کچھ ایسی جڑی بوٹیاں خود رو اور کاشت ہوتی ہیں جنہیں جانور کھاتے ہیں تو ان کے گوشت سے خوشبو آتی ہے۔

مگر پھولوں کے کاشت کار سینتیس سالہ غلام علی جہاں زیادہ مہک والے دیسی گلاب کی کمیابی کے شاکی ہیں، وہیں پھولوں کی کاشت میں کمی بھی ان کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ وہ پچیس سال سے پھول کاشت کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پھولوں کی کاشت بہت ہی کم ہو گئی ہے کیوں کہ لوگ زمینیں بیچ رہے ہیں۔

ان کی اس بات کی تصدیق زمین کی خرید و فروخت کرنے والے ندیم اکبر بھی کرتے ہیں۔ ایک قطعہ اراضی جس پر گلاب کی فصل موجود ہے، کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’یہ سات ایکڑ رقبہ ہے، دو کروڑ کی پیش کش ہو چکی ہے۔ لگتا ہے یہ زمین بک جائے گی اور شاندار ٹاؤن بن جائے گا۔‘‘

پھولوں کی بولی سے فارغ، پلّو سے ماتھے سے پسینہ صاف کرتے محمد الیاس جو 1978ء سے اس کام میں ہیں، کہتے ہیں، ’’ٹاؤن بنتے جا رہے ہیں۔ یہ ہماری آڑھت اور یہ ساتھ بنی دکانیں، یہ ساتھ والا پٹرول پمپ بھی، یہاں گلاب اگتے تھے۔‘‘