لاہور میں فیض میلہ جاری
18 نومبر 201717 نومبر سے شروع ہونے والے اس تین روزہ میلے کا اہتمام فیض فاؤنڈیشن ٹرسٹ اور لاہور آرٹس کونسل نے مشترکہ طور پر کیا ہے۔
اس وقت لاہور کی مال روڈ پر واقع الحمرا آرٹس سینٹر ملک بھر سے آئے ہوئے ادیبوں، شاعروں، فنکاروں ،صحافیوں ، دانشوروں اور فنون لطیفہ کے ماہروں سے بھرا پڑا ہے۔ فیض عالمی میلے کے موقع پر الحمرا آرٹس سینٹر کو بہت خوبصورتی سے سجایا گیا ہے۔
کراچی میں ساتویں عالمی اردو کانفرنس جاری
فیض عالمی میلے میں فیض احمد فیض کے حوالے سے ایک تصویری نمائش بھی لگائی گئی ہے جب کہ نوجوانوں کے لیے تقریری مقابلوں، بچوں کے لیے آرٹ اور پینٹنگز کی سرگرمیوں کا اہتمام کیا گیا ہے۔ میلے میں کتابوں کے اسٹالز بھی لگائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ شرکا کے لیے ’فوڈ کورٹ‘ کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔
اس میلے میں منعقد کیے جانے والے ستر سے زائد سیشنوں میں 100 سے زائد نامور شخصیات آرٹ، کلچر، موسیقی، فلم، سیاست اور تھیٹر سمیت مختلف موضوعات پر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہی ہیں۔
فیض میلے کے آغاز میں اجوکا تھیٹر کی جانب سے ’لو پھر بہار آئی‘ کے عنوان سے ایک اسٹیج ڈرامہ پیش کیا گیا۔ میلے کی ادبی محفلوں میں جو شخصیات اظہار خیال کر رہی ہیں ان میں زہرہ نگاہ، مستنصر حسین تارڑ، امجد اسلام امجد، ڈاکٹر عارفہ سیدہ، اصغر ندیم سید اور ڈاکٹر طاہر اکرام جیسے نام بھی شامل ہیں۔
اس میلے میں ’شاعری کے 70 سال‘ اور ’داستان گوئی‘ کے حوالے سے بھی خصوصی سیشن رکھے گئے ہیں۔ ہفتے کے روز میلے کے دوسرے دن بشریٰ انصاری کے ساتھ ایک مکالمے کو بہت دلچسپی سے سنا گیا۔
اتوار کے روز ہونے والے فلم سے متعلق ایک سیشن میں جاوید شیخ، نبیل قریشی، شان شاہد اور ماہرہ خان اس موضوع پر اپنے خیالات پیش کریں گے۔ میلے کے شرکا کو موسیقی کے حوالے سے گلوکار جواد احمد، ارشد محمود، اور شفقت علی خان کے خیالات سننے کا موقع بھی مل رہا ہے جب کہ پنجابی زبان کے حوالے سے بھی ایک خصوصی نشست رکھی گئی ہے۔
عالمی فیض میلے کے سیاسی مذاکروں میں سینٹر حاصل بزنجو، اعتزاز احسن، افراسیاب خٹک، اسد عمر، روبینہ خالد اور خوش بخت شجاعت کے خیالات شرکا کی توجہ کا مرکز ہیں۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے فیض میلے میں شریک پاکستانی صحافی اور دانشور ایاز امیر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایسے میلوں کا وجود غنیمت سمجھنا چاہیے جن میں کتاب، ادب اور آرٹ کے حوالے سے گفتگو سننے کو مل جاتی ہے۔ ان کے بقول پاکستان میں فضول شور شرابا تو بہت سنائی دیتا ہے لیکن علم دوستی پر مبنی ایسے مواقع کم ہی ملتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ انسانوں کی تخلیقی صلاحیتیں ہی معاشروں کو ترقی یافتہ بناتی ہیں، ان کے خیال میں آرٹ اور ادب کی سرگرمیوں کے فروغ سے انسانوں اور معاشروں میں بہتری آتی ہے۔
پاکستانی کاروباری شخصیت سید یاور علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ملک میں صحیح معنوں میں تبدیلی آ چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض لوگ پاکستان کو پچھلے پانچ سالوں کے پس منظر میں دیکھتے ہیں حالانکہ صرف گزشتہ دو تین سالوں میں پاکستان میں کلچر، فلم ، ڈرامہ اور میوزک ’ریوائیو‘ ہو گیا ہے۔ یاور علی کے مطابق، ’’اسی طرح پاکستان کی معیشت بھی بہتر ہو رہی ہے، لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں گروتھ آٹھ اشاریہ پانچ فی صد تک پہنچ چکی ہے جو کہ ایک اہم پیش رفت ہے۔‘‘
سید یاور علی کو امید ہے کہ پاکستان میں شروع ہونے والا بہتری کا عمل مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔ فیض میلہ اتوار کی شام اپنے اختتام کو پہنچے گا۔