1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لالچی تاجروں نے کورونا کو بھی منافع خوری کا ذریعہ بنا لیا

19 جون 2020

پاکستان میں کورونا کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس صورت حال میں کووڈ انیس کے مریضوں کی ادویات اور طبی آلات یا تو مارکیٹ سے غائب ہو چکے ہیں یا پھر ان کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/3e0AO
Coronavirus in Pakistan - Beginn des Ramadan
تصویر: imago images/Pacific Press Agency/R. S. Hussain

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں بری طرح سے متاثر ہونے والے شہر لاہور میں نئی قسم کے کورونا وائرس کے متاثرین کو انفیکشن کی پیچیدگیوں کو کم کرنے کے لیے تجویز کی جانے والی ادویات کے حصول میں شدید مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ دوا ساز اداروں کی ملی بھگت سے مارکیٹ میں کئی ایسے گروہ وجود میں آ چکے ہیں جو معمولی قیمت پر ملنے والی ادویات، قلت کی وجہ سے کافی مہنگے نرخوں پر فروخت کر رہے ہیں۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مرکزی رہنما ڈاکٹر اشرف نظامی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ بعض لالچی تاجر لوگوں کی مجبوریوں کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ان کے بقول بعض مفاد پرست عناصر، حکومت اور فارماسیوٹیکل انڈسٹری کی ملی بھگت سے مصنوعی قلت پیدا کرکے مال بنا رہے ہیں اور حکومت ایسے عناصر کو روکنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ ''حکومت اگر چاہے تو اس بحران کو کنٹرول کر سکتی ہے لیکن معلوم نہیں وہ ایسا کیوں نہیں کر رہی۔‘‘

یہ بھی پڑھیے: اسمارٹ لاک ڈاؤن: ’کیا یہ لڑائی کے بعد یاد آنے والا مُکا ہے‘

ڈاکٹر نظامی نے مزید بتایا کہ اب تو حال یہ ہو گیا ہے کہ میڈیکل اسٹور والا جو قیمت مانگ لے لوگوں کو وہی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ ان کے بقول کورونا کے مریض کے جسم میں آکسیجن کا لیول معلوم کرنے کے لیے جو عام سا پلس آکسی میٹر استعمال کیا جاتا ہے اس کی قیمت بھی کئی گنا بڑھ چکی ہے۔

Pakistan Coronavirus
تصویر: Getty Images/AFP/R. Tabassun

پاکستان کے میڈیکل سیکٹر پر نظر رکھنے والے ایک ماہر سفیان احمد نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ یہ بات درست ہے کہ مارکیٹ میں اس وقت بحران کی سی کیفیت ہے۔ ان کے بقول ''اس صورت حال کا آغاز اس وقت ہوا جب شروع شروع کے دنوں میں سارے وینٹی لیٹرز حکومت نے اٹھا لیے۔ اس وقت ڈیمانڈ بڑھنے سے پرانا وینٹی لیٹر جو پانچ لاکھ میں بآسانی مل جاتا تھا اس کی قیمت گیارہ لاکھ سے بھی تجاوز کر گئی۔ اس کے بعد مارکیٹ سے سینی ٹائزر غائب ہوئے بعد میں ماسک کی قلت ہو گئی۔ اس وقت بھی مارکیٹ میں این نائنٹی فائیو ماسک موجود نہیں اور غیر میعاری سینیٹائزرز کی فروخت جاری ہے۔‘‘

ادویات کی قیمتوں میں اضافہ، عوام پریشان

برطانیہ سے ڈیکسامیتھازون نامی عام سی دوا کی کورونا کے شدید مریضوں کے لیے افادیت کی خبریں آنے پر اب یہ دوائی میڈیکل سٹورز سے غائب کر دی گئی ہے اس کی قیمت میں بھی کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ یہی حال کئی دیگر ادویات کا ہے۔ کووڈ انیس کے مریضوں کے لیے تجرباتی طور پر استعمال کیا جانے والا ایک انجیکشن جوساٹھ ہزار روپے میں آسانی سے مل جاتا تھا اب اس کی قیمت بلیک مارکیٹ میں چار لاکھ روپے تک پہنچ چکی ہے۔

 کووڈ انیس کے مرض میں شدت آ جانے پر مریض کو سانس لینے میں دقت ہوتی ہے اس لیے اسے آکسیجن کا فراہم کیا جانا ضروری ہو جاتا ہے۔ اس وقت کورونا کے مریضوں کی بہت بڑی تعداد گھروں میں موجود ہے ان میں سے شدید علیل مریضوں کے لیےآکسیجن کا حصول بہت مشکل  ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان کے ایک سینئیر صحافی اور لاہور پریس کلب کے جنرل سیکریٹری بابر ڈوگر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ آکسیجن سلنڈر مارکیٹ میں دستیاب نہیں اور اگر مل بھی جائیں تو وہ کم از کم چار پانچ گنا زیادہ قیمت پر ملتے ہیں۔

لاہور میں محمد اشرف نامی ایک شخص نے بتایا کہ وہ میڈیکل اسٹور پر جاتے ہیں تو انہیں بتایا جاتا ہے کی یہ دوا دستیاب نہیں، بعد میں تسلی کر لینے کے بعد وہ جگہ بتا دی جاتی ہے جہاں سے یہ دوا بلیک میں مل جاتی ہے۔ اشرف کے مطابق بعض میڈیکل سٹورز والے اپنی مرضی کی ادویات سادہ لوح گاہکوں کو زیادہ قیمت پر کورونا کے علاج کے نام پر فروخت کر رہے ہیں۔

Pakistan Coronavirus
تصویر: Getty Images/AFP/R. Tabassun

والٹن روڈ کے بلال نامی ایک نوجوان نے بتایا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹوٹکوں کے طور پر استعمال ہونے والی اشیا بھی منافع خوروں سے نہیں بچ سکیں۔ ان کے مطابق بیس روپے کی پچاس گرام ملنے والی ثنا مکی اب اس مقدار میں دو سو روپے میں بھی نہیں مل رہی۔ بلال کے بقول قوت مدافعت بڑھانے والی وٹامن کی گولیاں اور پھلوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو چکا ہے۔ مقبول عالم نامی ایک اور شخص نے بتایا کہ کورونا کا ٹیسٹ کرنے والی لیبارٹریوں کی طرف سے منہ مانگے دام وصول کئے جا رہے ہیں۔ ان کو کوئی نہیں پوچھ رہا۔

'کورونا سے توشاید بچ جائیں لیکن یہ مہنگائی جان لے لے گی‘

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے اس بحرانی کیفیت میں پاکستان بھر کے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ کورونا مرض نہ ہونے کی صورت میں حفظ ماتقدم کے طور پر ادویات خرید کر ذخیرہ کرنے سے اجتناب کریں ۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پی ایم اے کے مرکزی صدر ڈاکٹر محمد افضل کا کہنا تھا کہ یوں تو کورونا کے حتمی علاج کی دوا ابھی تک موجود نہیں ہے لیکن ان مریضوں کو ریلیف پہنچانے کے لیے دی جانے والی کئی ادویات کی قلت پائی جا رہی ہے۔ ''میرے خیال میں میڈیکل اسٹوروں کو اس بات کا پابند کیا جانا چاہیے کہ وہ ڈاکٹر کا نسخہ دیکھنے کے بعد ہی دوا دیں۔‘‘

مزید پڑھیے: ایک طرف کورونا، دوسری طرف بے روزگاری

بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں کورونا سے صحتیاب ہونے والے مریضوں کے پلازمے کی بھی ٹریڈنگ شروع ہو چکی ہے۔ کئی لوگ پلازمہ دستیاب کرنے کا ایک لاکھ روپے لیتے ہیں، اسکریننگ کے بیس پچیس ہزار روپے اس کے علاوہ ہیں۔

Coronavirus Pakistan
تصویر: picture-alliance/AP Photo/F. Khan

کورونا کے ایک مریض کے لیے دوا لانے کے لیے مقامی میڈیکل اسٹور پر موجود طالب حسین نامی ایک شخص نے بتایا کہ امیر لوگوں کو کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن غریبوں کی حالت بہت خراب ہے '' ہم کورونا سے تو شاید بچ جائیں لیکن اس مہنگائی کے ہاتھوں نہیں بچ سکیں گے۔‘‘

ڈی ڈبلیو کے رابطہ کرنے پر پاکستان فارما سوٹیکل ایسوسی ایشن کے مرکزی سیکریٹری جنرل نواز احمد نے بتایا کہ انہیں ان امور پر بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ایسوسی ایشن کے ایک سابق صدر ڈاکٹر قیصر وحید کا کہنا تھا کہ بعض ادویات اس لیے بھی مہنگی ہیں کہ ملک کی ڈرگ کنٹرول اتھارٹی ان کو رجسٹر نہیں کر رہی۔

یہ بھی پڑھیے:  پنجاب میں کورونا بحران سنگین، ہسپتالوں میں جگہ ختم

پاکستان کے قانون ڈرگ ایکٹ 1976ء کے تحت ادویات کی ذخیرہ اندوزی یا ان کی زائد قیمت پر فروخت کرنا جرم ہے ۔ یہ جرم ثابت ہونے پرقید اور جرمانے کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔

پنجاب کے وزیراعلی عثمان بزدار نے جمعرات کے روز ادویات کی ذخیرہ اندوزی کرنے، مہنگے داموں آکسیجن سلنڈر فروخت کرنے والوں کے خلاف ایکشن لینے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ تمام لیبارٹریوں کو ایک ہی قیمت پر کورونا ٹیسٹ کرنے کا پابند بنایا جائے گا۔

کورونا وائرس سے نمٹیں یا پولیو سے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید