لازمی فوجی سروس سے ہر طرح کے استثنیٰ کے خاتمے کا فیصلہ
17 مئی 2016جنوبی کوریا کی وزارت دفاع کے مطابق اس ملک میں سالانہ اٹھائیس ہزار نوجوان مختلف وجوہات کی بنیاد پر لازمی فوجی سروس کا حصہ بننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ یہ وجوہات یا تو تعلیمی نوعیت کی ہوتی ہیں یا پھر یہ نوجوان پولیس سروس اور فائر بریگیڈ میں فرائض انجام دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔
جنوبی کوریائی وزارت دفاع کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، ’’اگر ملک کی آبادی سے متعلق کی جانے والی پیش گوئیوں کو دیکھا جائے تو سن دو ہزار تئیس تک ہمیں بیس سے تیس ہزار تک فوجیوں کی کمی کا سامنا ہوگا۔‘‘
بتایا گیا ہے کہ سیول میں ملکی وزارت دفاع اس سلسلے میں دیگر وزارتوں سے بھی صلاح مشورے جاری رکھے ہوئے ہے۔ منصوبے کے مطابق لازمی فوجی سروس کے سلسلے میں دیے جانے والے استثنیٰ کو مرحلہ وار ختم کیا جائے گا اور اس کا آغاز سن دو ہزار بیس سے ہو گا۔
ساٹھ برس پہلے کوریائی جنگ کے خاتمے کے بعد سے جنوبی کوریا کے اٹھارہ سے پینتیس برس تک کی عمر کے ہر مرد کے لیے دو سالہ فوجی سروس لازمی ہے۔
جنوبی کوریا اور شمالی کوریا کو مسلسل جنگ کی سی صورتحال کا سامنا ہے۔ ان دنوں کوریائی ریاستوں کے مابین 1950ء میں شروع ہونے والی جنگ کسی امن معاہدے کی بجائے ایک فائر بندی کی نتیجے میں اختتام پذیر ہوئی تھی۔ لہٰذا تکنیکی طور پر یہ دونوں ملک ابھی تک حالت جنگ میں ہیں۔
جنوبی کوریائی وزارت دفاع کے جاری کردہ بیان میں مزید کہا گیا ہے، ’’لازمی فوجی سروس ہماری سکیورٹی کی اس صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے، جو تقسیم کے بعد سے پیدا ہو چکی ہے۔‘‘
جنوبی کوریا کے نوجوانوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی لازمی فوجی سروس کا حصہ بننا پڑتا ہے کیوں کہ انکار کی صورت میں انہیں جیل کی سزا سنا دی جاتی ہے۔ دوسری جانب مجرمانہ ریکارڈ کا ایک مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ ایسے کسی بھی شہری کو سرکاری اداروں یا پھر بڑی کمپنیوں میں ملازمت حاصل کرنے کے سلسلے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس کے باوجود نوجوان مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے لازمی فوجی سروس سے استثنیٰ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ کئی نوجوان اپنی بیرون ملک تعلیم کا دورانیہ بڑھا لیتے ہیں جبکہ کئی دیگر خود کو اس قدر بھوکا رکھتے ہیں کہ لازمی فوجی سروس کے لیے بھرتی سے قبل میڈیکل امتحان میں ہی انہیں فوج کے لیے غیر موزوں قرار دے دیا جائے۔