1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قندیل بلوچ قتل کا اشتہاری ملزم پاکستان کے حوالے

3 جنوری 2020

سوشل میڈیا پر کچھ صارفین نے قندیل بلوچ اور موجودہ ٹک ٹاک اسٹار حریم شاہ کا موازنہ کرنے کی کوشش بھی کی اور حریم شاہ کو بھی قندیل بلوچ جیسے انجام سے ڈرایا ہے۔

https://p.dw.com/p/3VftG
Qandeel Baloch Bloggerin
تصویر: Facebook/Qandeel Baloch via Reuters

سعودی عرب نے قندیل بلوچ کے قتل کیس میں نامزد ملزم مظفر اقبال کو پاکستان کے حوالے کر دیا ہے۔ اس قتل کیس کے مرکزی مجرم کو ستمبر میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

حریم شاہ، کیا پاکستانی میڈیا غیر اخلاقی رپورٹنگ کر رہا ہے؟

'جانے دو بیٹی، بڑا بھائی ہے'
 
پاکستانی وزارت داخلہ کے ترجمان عبد العزیز عقیلی نے تصدیق کر دی ہے کہ قندیل بلوچ قتل کیس میں نامزد ملزم مظفر اقبال کو انٹر پول کے ذریعے گرفتار کر کے پاکستانی حکام کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مفرور ملزم کو ریاض میں انٹرپول کے نیشنل سینٹرل بیورو کی مدد سے گرفتار کیا گیا اور بعد ازاں ملزم مظفر اقبال کو ملتان پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ اقبال پر الزام ہے کہ انہوں نے قندیل بلوچ کے بھائی کو اکسایا تھا کہ وہ غیرت کے نام پر اپنی بہن کا قتل کر دے۔

سوشل میڈیا اسٹار قندیل بلوچ کا قتل ایک ایسا ہائی پروفائل کیس تھا جس نے نہ صرف پاکستانی بلکہ دنیا بھر کے میڈیا میں تشہیر پائی تھی۔ چھبیس سالہ قندیل بلوچ کے قتل کے مقدمے میں ان کے بھائی محمد وسیم اور عارف کے علاوہ مظفر اقبال نامزد تھے۔ اس سے قبل مقتولہ کا بھائی عارف بھی سعودی عرب فرار ہو گیا تھا۔ اکتوبر کے مہینے میں ملزم عارف کو بھی انٹرپول کے ذریعے سعودی عرب سے گرفتار کیا گیا تھا۔

سوشل میڈیا ماڈل گرل قندیل بلوچ کو پندرہ جولائی دو ہزار سولہ کو مظفر آباد میں واقع ان کے گھر میں قتل کر دیا گیا تھا۔  قتل کے اس مقدمے کی سماعتیں دو ہزار سولہ سے دو ہزار انیس تک جاری رہیں۔ اس کیس کی ایک سو باون سماعتیں ہوئی تھیں۔ اس مقدمے کے دوران مقتولہ کے بھائی محمد وسیم نے اقرار جرم کر لیا تھا جس پر عدالت نے اسے عمر قید کی سزا سنائی تھی جبکہ نامزد ملزم مفتی عبدالقوی  سمیت پانچ دیگر ملزمان کو بری کر دیا گیا تھا۔ سعودی عرب سے گرفتار ہونے والا مظفر بھی اسی مقدمے میں نامزد تھا۔

پاکستان: نیا قانون غیرت کے نام پر قتل کے خلاف ایک امید

قندیل بلوچ کے والد کی جانب سے پہلے اپنے بیٹوں کو معاف نہ کرنے کی بات کی گئی تھی لیکن بعد میں ان کی جانب سے عدالت میں درخواست دائر کی گئی تھی کہ بیٹوں کو معاف کر دیا جائے۔ لیکن عدالت نے ان کی اس درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔ واضح رہے کہ قندیل بلوچ اپنے والدین کی کفالت کرتی تھیں۔

قندیل بلوچ کے قتل نے پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل ہونے والی خواتین کے موضوع کو دنیا بھر میں اجاگر کیا تھا۔ پاکستان جیسے قدامت پسند معاشرے میں بالخصوص پسماندہ علاقوں میں خواتین کے ساتھ تعصبات عام سی بات ہے، جہاں انہیں سماجی اور اخلاقی سطح پر دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کئی واقعات میں خواتین کو غیرت کے نام پر قتل بھی کیا جا چکا ہے۔


  
قندیل بلوچ کا تعلق بھی پاکستان کے ایک ایسے پسماندہ علاقے سے تھا، جہاں خواتین کا گھروں سے باہر نکلنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ پدر شاہی روایات میں جکڑے پاکستان میں قدامت پسندوں کے علاوہ نام نہاد تعلیم یافتہ کچھ افراد نے بھی قندیل بلوچ کی بے باکی اور لائف اسٹائل کو ان کے قتل کا وجہ قرار دیا تھا۔

سوشل میڈیا پر پاکستانی صارفین کی جانب سے اس موضوع پر ایک بار پھر بحث شروع ہو گئی ہے۔ کچھ صارفین نے قندیل بلوچ اور موجودہ ٹک ٹاک اسٹار حریم شاہ کا موازنہ کرنے کی کوشش بھی کی اور حریم شاہ کو بھی قندیل بلوچ جیسے انجام سے ڈرایا ہے۔